اسلام آباد —
پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل المدت شراکت داری کے اسٹریٹیجک مذاکرات لگ بھگ تین سال کے تعطل کے بعد پیر کو بحال ہوئے جس میں دونوں جانب سے قریبی تعلقات کو فروغ دینے سے متعلق بیانات سامنے آئے۔
ان اہم مذاکرات کے بارے میں پاکستان میں اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اسٹریٹیجک مذاکرات کو معنی خیز بنایا جائے۔
’’ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ اس ڈائیلاگ کے ذریعے ہم ایک پارٹنر شب کو فروغ دیں جس کا محور عوام ہونے چاہیئے۔ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کی اہمیت کا علم ہو گا تو تعلقات آگے بڑھیں گے۔‘‘
سابق صدارتی ترجمان اور سینیٹ کے رکن فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں ضروری ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو یقینی بنائیں۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کامیاب مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ اعتماد کے فقدان کو حل کیا جائے۔
’’اعتماد کا فقدان ہی ہی اسٹریٹیجک مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں ماننا چاہیئے کہ امریکہ کے بھی سلامتی سے متعلق خدشات ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ ہمارے بھی کچھ خدشات ہیں۔‘‘
سابق سفارت کار ایاز وزیر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خطے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اسٹریٹیجک مذاکرات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری کہتے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی مستقبل کی پالیسی چاہے کچھ بھی ہو، دونوں ملکوں کے عوام کے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسٹریٹیجک مذاکرات میں فیصلے کرنے چاہئیں۔
’’چاہے امریکہ کا اس خطے کے اندر فوجی کردار ہو یا نا ہو۔ مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹیجک مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیئے۔ ‘‘
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اُن کے چلے جانے کے بعد وہاں خلا نا رہے۔
ان اہم مذاکرات کے بارے میں پاکستان میں اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ اسٹریٹیجک مذاکرات کو معنی خیز بنایا جائے۔
’’ہماری کوشش ہونی چاہیئے کہ اس ڈائیلاگ کے ذریعے ہم ایک پارٹنر شب کو فروغ دیں جس کا محور عوام ہونے چاہیئے۔ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کی اہمیت کا علم ہو گا تو تعلقات آگے بڑھیں گے۔‘‘
سابق صدارتی ترجمان اور سینیٹ کے رکن فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کے تناظر میں ضروری ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی ترجیحات کو مد نظر رکھتے ہوئے دوطرفہ تعاون کو یقینی بنائیں۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ کامیاب مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ اعتماد کے فقدان کو حل کیا جائے۔
’’اعتماد کا فقدان ہی ہی اسٹریٹیجک مذاکرات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں ماننا چاہیئے کہ امریکہ کے بھی سلامتی سے متعلق خدشات ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کا یقین ہونا چاہیئے کہ ہمارے بھی کچھ خدشات ہیں۔‘‘
سابق سفارت کار ایاز وزیر بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خطے کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اسٹریٹیجک مذاکرات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری کہتے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں امریکہ کی مستقبل کی پالیسی چاہے کچھ بھی ہو، دونوں ملکوں کے عوام کے مفادات کو دیکھتے ہوئے اسٹریٹیجک مذاکرات میں فیصلے کرنے چاہئیں۔
’’چاہے امریکہ کا اس خطے کے اندر فوجی کردار ہو یا نا ہو۔ مستقل بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو اسٹریٹیجک مذاکرات کا حصہ ہونا چاہیئے۔ ‘‘
پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اُن کے چلے جانے کے بعد وہاں خلا نا رہے۔