وسطی ایشیائی ممالک بھی یوکرین تنازع میں روس کی حمایت سے گریزاں
روس کے ساتھ قریبی شراکت داری کے باوجود وسطی ایشیائی ممالک یوکرین کے خلاف روسی جارحیت پر کریملن کی حمایت سے گریزاں ہیں۔ یوکرین پر روس کے حملے کو کئی روز گزر جانے کے باوجود کسی بھی وسطی ایشیائی ملک نے روسی اقدام کی حمایت نہیں کی۔
وائس آف امریکہ کی نوبہار امامووا کی رپورٹ کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک نے مشرقی یوکرین کے علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو آزاد علاقے تسلیم کرنے کے پوٹن کے اعلان کی بھی تائید نہیں کی تھی۔
وسطی ایشیائی ممالک کا یہ محتاط رویہ روسی قیادت کے ان دعووں کی بھی نفی کر رہا ہے جن میں صدر پوٹن کہتے رہے ہیں کہ وسطی ایشیائی ممالک اُن کے فیصلوں کو 'سمجھتے' ہیں۔
امریکی میڈیا نے حال ہی میں امریکی قومی سلامتی کونسل سے منسوب ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قازقستان نے ماسکو کی جانب سے یوکرین میں فوجیں بھیجنے کی 'درخواست' مسترد کر دی ہے جس کا امریکہ خیر مقدم کرتا ہے۔
یوکرین بحران کے پیشِ نظر کئی وسطی ایشیائی ممالک یوکرین سے اپنے شہریوں کا انخلا بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اٹھائیس فروری کو وسطی ایشیائی وزرائے خارجہ کے ساتھ ایک ورچوئل ملاقات کے دوران، امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی اور اس ملک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے لیے واشنگٹن کی حمایت کا اعادہ کیا۔
البتہ وسطی ایشیائی ممالک نے روسی جارحیت سے متعلق عوامی سطح پر تاحال کھل کر اظہارِ خیال نہیں کیا۔
فرانس میں بھی روسی ارب پتی کی کشتی ضبط
جرمنی کے بعد فرانس میں بھی ایک اور ارب پتی روسی شخص کی پر تعیش کشتی کو ضبط کر لیا گیا ہے۔
فرانس کے وزیرِ خزانہ برونو لی میرے کا جمعرات کو کہنا تھا کہ فرانسیسی حکام نے روس کی تیل کمپنی رازنیفٹ کے سربراہ ایگور سیکن کی کشتی کو ضبط کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیگور سیکن روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے قریبی افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسٹم کے افسران نے یورپی یونین کی روس کی حکومت کے قریبی افراد پر عائد کی گئی پابندیوں پر عمل درآمد کیا ہے۔