'افغانستان میں طالبان آ گئے لیکن کرکٹ کہیں نہیں جا رہی'
طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس کے بعد اُن کے ممکنہ دورِ حکومت میں خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق کے علاوہ کرکٹ کے حلقوں میں ملک میں کھیل کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
کسی کا کہنا ہے کہ طالبان کو کرکٹ پسند نہیں اس لیے اسے ختم کر دیں گے۔ کوئی پیش گوئی کر رہا ہے کہ افغانستان کی کرکٹ ٹیم اب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی (ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ) میں بھی شرکت نہیں کر سکے گی۔
افغانستان میں طالبان کا قبضہ شاید ہی کسی اور کھیل سے محبت کرنے والوں کے لیے اتنا پریشان کن ہو جتنا کہ کرکٹ کے مداحوں کے لیے ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ افغان کرکٹ ٹیم کی حالیہ دنوں میں بہتر اور ان کے کھلاڑیوں کی دنیا بھر میں شان دار کارکردگی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور افغانستان کے سابق کوچ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ طالبان کو کرکٹ سے کوئی مسئلہ نہیں، اس سے پہلے بھی وہ کرکٹ کے حق میں فتوٰی جاری کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کرکٹ کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی جب وہ حکومت میں تھے تو انہوں نے کرکٹ کھیلنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی تھی۔
سرکاری میڈیا پر طالبان کا کنٹرول، 'جنگجو خواتین اینکرز کو بھی انٹرویو دے رہے ہیں'
افغانستان پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے سرکاری میڈیا کا کنٹرول بھی سنبھال کر خواتین اینکرز سمیت میڈیا ورکرز کو کام پر واپس آنے کی ہدایت کی ہے۔
سرکاری میڈیا کے علاوہ نجی چینلز پر بھی خواتین اینکرز اسکرین پر نمودار ہو رہی ہیں اور طالبان کے نمائندے تازہ ترین صورتِ حال پر خواتین اینکرز سے بھی گفتگو کر رہے ہیں جس کے بعد بعض ماہرین کے مطابق طالبان کو خواتین کے ٹیلی ویژن اسکرین پر آنے سے بظاہر اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
افغان نیوز چینل 'طلوع' نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک تصویر شیئر کی ہے جس میں نیوز اینکر بہشتہ ارغند طالبان میڈیا ٹیم کے رکن مولوی عبدالحق حماد سے کابل شہر کی صورتِ حال پر ان کے تاثرات لے رہی ہیں۔
کابل کے مقامی صحافی بشیر نادم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اتوار کی نسبت صورتِ حال میں کچھ نرمی دیکھنے میں آئی ہے۔
کیا امر اللہ صالح طالبان کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں؟
افغانستان کے میں صدر اشرف غنی کے نائب صدر امر اللہ صالح نے واضح کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے اور طالبان کابل میں داخل ہو گئے تو بھی وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امر اللہ صالح کابل کے شمال مشرق میں واقع پنجشیر میں موجود ہیں۔ پنجشیر ان چند علاقوں میں شامل ہے جہاں تاحال طالبان قابض نہیں ہوئے۔
امر اللہ صالح نے سوشل میڈیا پر اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ ان کو سننے والے لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ وہ کبھی طالبان کے ساتھ ایک چھت کے نیچے نہیں بیٹھیں گے۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
اب سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں سابق نائب صدر پنجشیر میں اپنے اتالیق احمد شاہ مسعود کے بیٹے کے ساتھ موجود ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف یہاں سے مزاحمت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے کوئی مصدقہ بیان موجود نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پنجشیر افغانستان میں وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں طالبان 1996 میں بھی قابض نہیں ہو سکے تھے جب کہ اس علاقے پر سوویت یونین بھی ایک دہائی میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
’اے ایف پی‘ کے مطابق پنجشیر کے ایک مکین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کو کبھی بھی پنجشیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہاں ان کو بھر پور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغان فورسز کو امریکہ کے فراہم کردہ ہتھیار طالبان کے ہاتھ لگ گئے
افغان فورسز کی پسپائی کے بعد نہ صرف طالبان نے افغانستان میں سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے بلکہ انہیں فراہم کردہ امریکی ہتھیار، اسلحہ بارود، ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان بھی طالبان کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز صوبائی ضلعی مراکز کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کی وجہ سے بھاری تعداد میں جدید جنگی آلات طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
اس کے بعد لڑاکا طیاروں سمیت مزید اہم ساز و سامان ان کے ہاتھ آیا جب صوبائی دارالحکومت اور فوجی اڈوں سے افغان فورسز پسپا ہوئیں۔
ایک دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ طالبان کے ہاتھ بھاری مقدار میں امریکہ کے فراہم کردہ آلات لگے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پسپائی افغان حکومتی فورسز کے بارے میں امریکہ عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کے غلط اندازوں کا ثبوت ہے۔
’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق پائیدار بنیادوں پر افغان فوج اور پولیس تیار کرنے میں امریکہ کی مبینہ ناکامی اور ان کی پسپائی کے اسباب آئندہ برسوں میں عسکری تجزیے کا اہم موضوع ہوں گے۔