امریکی اداروں سے منسلک افغان کارکنوں کی شناخت ویب سائٹس سے ہٹائی جا رہی ہے
افغانستان میں کام کرنے والے امریکہ کے کئی وفاقی ادارے، اپنی ویب سائٹس سے تیزی سے ان افغان شہریوں سے متعلق مضامین اور ان کی تصاویر ہٹا رہے ہیں جو ان کے ساتھ منسلک رہے ہیں تاکہ انہیں طالبان کی جانب سے انتقام کے خوف سے محفوظ رکھا جا سکے۔
ویب سائٹس سے معلومات ہٹانے کی مہم کا آغاز گزشتہ ہفتے کے آخر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغان فورسز مکمل طور پر شکست کھا چکی ہیں اور طالبان اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں جتنا کہ پہلے توقع کی جا رہی تھی۔
خدشات یہ پائے جاتے ہیں کہ طالبان یا ان کے حامی ان ویب سائٹس پر جا کر ان افغان شہریوں کو شناخت کر سکتے ہیں جنہوں نے امریکیوں کے ساتھ کام کیا تھا یا جنہیں ان کی سروسز سے فائدہ حاصل ہوا تھا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ان کے محکمے نے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایسے افراد کے تحفظ کے پیش نظر شناخت سے متعلق مواد سوشل میڈیا اور ویب سائٹس سے ہٹا دیں۔ یہ چیز اس وقت حکومت کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محکمہ خارجہ کا پالیسی یہ ہے کہ اس طرح کے مواد کو صرف انتہائی غیرمعمولی صورت حال میں ہٹایا جاتا ہے ، اور اب بھی اس طرح کی صورت حال ہے۔
انہوں نے بتایا کہ محکمے کا عملہ متعلقہ افراد کی شناخت ہذف کرتے ہوئے قواعد پرعمل کر رہا ہے۔
ایک اور امریکی ادارے یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ نے اپنےایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان میں کام کرنے والی ایجنسیز نے گزشتہ جمعے سے اپنی ویب سائٹس کی صفائی شروع کر دی تھی۔
اسی طرح امریکہ کے ایگریکچر ڈیپارٹمنٹ کے ایک عہدے دار نے بتایا ہے کہ ان کا محکمہ بھی انہی خطوط پر کام کر رہا ہے۔
پاکستان میں مقیم افغان طالب علم اپنے ملک کی صورت حال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
پاکستان میں مقیم افغان طالب علم ایک بار پھر اپنے آبائی وطن کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورت حال کے بارے میں متفکر ہیں۔ افغانستان کے موجودہ حالات کے بار ے میں وائس آف امریکہ نے اسلام آباد میں موجود کچھ افغان طلباء کی رائے معلوم کی ہے۔ ان کے تاثرات اس ویڈیو دیکھیئے۔
انخلا کا صدر بائیڈن کا فیصلہ عین قومی مفاد میں ہے، مشیر قومی سلامتی
صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی، جیک سلیوان نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی بنیاد 2020 میں طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والا سمجھوتا ہے، اور یہ کہ پچھلے ایک سال سے افغان افواج ملکی دفاع کے فرائض انجام دے رہی تھیں، جب کہ امریکہ کی جانب سے انہیں تربیت، اسلحہ اور فضائی مدد حاصل رہی۔
وائٹ ہاؤس کی اخباری بریفنگ کے دوران، سلیوان نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے انخلا کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ 'کمانڈر ان چیف' کے پاس دو ہی آپشن تھے: انخلا یا پھر افغانستان میں مزید فوج تعینات کرنا۔ صدر نے انخلا کا فیصلہ کیا، جو عین قومی مفاد میں تھا۔
بقول ان کے، ''صدر نے قومی مفاد میں درست فیصلہ کیا''، کیونکہ اضافی فوج تعینات کرنے کا مطلب یہ ہوتا کہ خانہ جنگی کی صورت میں جانیں دی جائیں۔ انہوں نے جو بائیڈن کے الفاظ دہرائے کہ اگر افغان فوج اپنا دفاع خود کرنے پر تیار نہیں، تو یہ کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ 20 سال تک افغانستان کے لیےامریکی فوج نے اپنی جانوں تک کا نذرانہ دیا، لڑائی میں بہت سارے فوجی اہل کار زخمی ہوئے؛ جب کہ امریکہ نے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد رقوم خرچ کیں، دو لاکھ افغان فوج تیار کی جسے جدید تربیت اور اسلحہ فراہم کیا گیا۔
طالبان کی جانب سے آنے والے بیانات حوصلہ افزا ہیں، عمر داؤد زئی
صدر اشرف غنی کے سابق خصوصی ایلچی برائے پاکستان، محمد عمر داؤدزئی کا کہنا ہے کہ ابھی تک طالبان کی طرف سے جو بھی بیانات یا احکامات سامنے آئے ہیں وہ ''امید افزا'' ہیں۔
بقول ان کے، "یہی فرق ہے ابھی کے طالبان اور نوے کی دہائی کے طالبان میں۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ آج کے طالبان بدل چکے ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی 43 سالہ جنگ ختم ہو رہی ہے جب کہ افغانستان کی سیکیورٹی کی صورت حال تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے"۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سفارت کار نے کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے کے روز کابل سے دبئی آئے اور آئندہ دنوں میں افغانستان واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ''مستقبل کی حکومت میں طالبان اگرچہ تمام فریقوں کی شمولیت کی بات کرتے ہیں، لیکن آئندہ دنوں میں پتا چل سکے گا کہ عملی طور پر ایسا ہوتا ہے یا نہیں؟ لیکن انہیں ہم سے بھی بات کرنی چاہیے، کیونکہ ہم گزشتہ چند دہائیوں سے حکومت اور انتظامیہ میں رہے ہیں اور ہمارے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے"۔
صدر اشرف غنی گزشتہ ہفتے افغانستان سے کسی نامعلوم مقام کی جانب چلے گئے ہیں۔ اس بارے میں عمر داؤدزئی نے بتایا کہ ان کا اشرف غنی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
"مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں ۔جب مجھے یہ پتا چلا کہ اشرف غنی افغانستان سے چلے گئے ہیں تو میں حیران بھی ہوا اور ناامید بھی۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ حالیہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے ان سے میرے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ میں صلح کے آپشن کو ترجیح دیتا تھا لیکن صدر غنی نے جنگ کا راستہ اختیار کیا، جو میری ترجیح نہیں تھی"۔
منگل کے روز صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر افغانستان کی اپنی فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑنا نہیں چاہتی، تو امریکی فوجی کیوں اس کام کے لئے اپنی جان داؤں پر لگائیں۔