کیا طالبان کے خلاف کوئی مزاحمتی تحریک ابھر سکتی ہے؟
امریکی دارالحکومت میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن پر تنقید انخلا کے فیصلے پر نہیں ہو رہی، بلکہ انخلا کے طریقہ کار پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ اب افغانستان میں فیصلہ سازی کا مکمل اختیار طالبان کے ہاتھ میں ہے۔
ان ماہرین کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کو انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے اس قدر تیزی سے قبضے کی توقع نہیں تھی۔ ماہرین کے مطابق، اس سے امریکی فوج اور انٹیلی جنس کی مبینہ کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔
امریکہ کی ٹفٹس یونی ورسٹی میں فلیچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی میں رائزنگ پاور الائنسز پراجیکٹ میں پوسٹ ڈاکٹورل سکالر فرینک او ڈونیل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات تو اب صاف ہے کہ وائٹ ہاؤس کو امریکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے اس قدر جلد قبضے کی توقع نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس بات سے امریکی انٹیلی جنس اور عسکری حکام کی جانب سے حالات کا درست اندازہ لگانے اور انخلا کے دوران مختلف سطح پر فوج کی موجودگی برقرار رکھنے میں کمی نظر آتی ہے۔
کابل سے انخلا کا کام جاری ہے جسے بخوبی مکمل کیا جائے گا۔ جنرل آسٹن
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ کابل سے امریکی شہریوں اور دیگر افراد کا بحفاظت انخلا جاری ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ یہ ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیں۔
جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارک ملی کے ہمراہ پینٹاگان میں اخباری بریفنگ کے دوران، جنرل آسٹن نے بتایا کہ کابل ایئرپورٹ سے امریکی شہریوں اور متاثرہ افغان باشندوں کے انخلا کا کام جاری ہے، جسے بخوبی مکمل کیا جائے گا۔
آسٹن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اب بھی کئی خدشات موجود ہیں۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ طالبان ان افراد کو کابل ایئرپورٹ آنے کی اجازت دے رہے ہیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ یا دیگر نوعیت کے قانونی کاغذات ہیں۔
جنرل مارک ملی نے کہا کہ اس بات کی کسی کو توقع نہیں تھی کہ افغان فوج کی موجودگی میں 11 دن کے اندر افغان حکومت کو اس طرح مات ہو سکتی ہے۔ بقول ان کے، اس ناکامی کا تعلق ''عزم اور قیادت'' کے معاملے سے ہے۔ انھوں نے اس کی مزید تفصیل بیان نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ 20 سال تک نیٹو ممالک کے اتحادیوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا، جن میں افغان مترجم بھی شامل ہیں، جنھیں اب مدد فراہم کی جارہی ہے، اس فرض کی انجام دہی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔
اقوام متحدہ افغانستان سے اپنا کچھ عملہ قازقستان منتقل کر رہا ہے
اقوامِ متحدہ کے عملے پر مشتمل ایک گروپ آج کابل سے قازقستان کے شہر الماتے روانہ جا رہا ہے جہاں سے وہ اپنے فرائض سرانجام دیتا رہے گا۔
اقوامِ متحدہ کے ایک بیان میں افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن، 'یوناما' کے عارضی دفتر کی اجازت دینے پر قازقستان کی حکومت کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جیسا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 16 اگست کو بتایا تھا، افغانستان میں اقوامِ متحدہ کی موجودگی سیکیورٹی کی صورتِ حال کے مطابق ہو گی۔ اب کابل اور دیگر حصوں میں سیکیورٹی اور دیگر رکاوٹوں کی وجہ سے عملے کو افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
عملے کی دوسرے ملک میں موجودگی کے باوجود افغانستان میں موجود اقوامِ متحدہ کے عملے اور خاندانوں کی امداد جاری رہے گی کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے عملے کی اکثریت اب بھی افغانستان میں ہی ہے۔ اور امدادی کام جاری رکھنے کے لئے یہ ایک عارضی انتطام ہے۔
اسی دوران اقوامِ متحدہ کے ادارے اپیل کر رہے ہیں کہ دنیا کے ممالک ایسے وقت میں افغان عوام کا ساتھ نہ چھوڑیں اور انہیں پناہ دیں جب ان کے ملک میں انسانی زندگی کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔
اس سال ملک میں تنازعے کی وجہ سے پانچ لاکھ کے قریب افغان شہری اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اب تک بہت کم لوگ بین الاقوامی تحفظ کی خاطر سرحد پار پناہ گزین کی حیثیت سے جا پائے ہیں۔
تاہم پناہ گزینوں کے لئے اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ صورتِ حال کسی وقت بھی تبدیل ہو سکتی ہے؛ اور خبردار کیا ہے کہ ملک پر طالبان کی حکومت کے بعد انتہائی غیر یقینی صورتِ حال کے نتیجے میں لوگ بڑی تعداد میں ملک سے نکل سکتے ہیں۔
کابل میں اپنے آپریشنز کو توسیع دینے کی صلاحیت نہیں، امریکی وزیرِ دفاع
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے پاس افغانستان میں اتنے وسائل موجود نہیں کہ کابل انٹرنیشل ائیرپورٹ کی حفاظت کے موجودہ مشن کو توسیع دی جائے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شہریوں کو نکال کر ائیر پورٹ پہنچانے کی کوشش نہیں کی جا سکتی، جو کابل کے کسی دوسرے مقام پر پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ سوال کہ افغانستان چھوڑنے کے خواہشمند افراد کو اکتیس اگست کی صدر بائیڈن کی دی ہوئی ڈیڈ لائن تک ائیر پورٹ کی حدود کے باہر جاکر نکالنے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں، ان میڈیا رپورٹس کے بعد پیدا ہوا کہ طالبان نے ائیر پورٹ جانے والی چوکیوں پر چند اہم عہدیداروں کو روک لیا ہے، جو ائیر پورٹ پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔
لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ کابل میں اس وقت ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ ہم اپنے آپریشنز کو توسیع دے سکیں۔ اور اگر ایسا کریں تو ان کو کابل میں کہاں تک لے جایا جا سکتا ہے؟
آسٹن، ایک ریٹائرڈ فور سٹار آرمی جنرل ہیں، جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی قیادت کی ہے۔ وہ پینٹاگان میں طالبان کے کابل پر اتوار کو ہونے والے قبضے کے بعد پہلی نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کی توجہ اس وقت کابل ائیر پورٹ پر مرکوز ہے، جسے کئی قسم کے ایسے خطرات کا سامنا ہے، جن پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں ہونے دے سکتے کہ کابل ائیر پورٹ کی ائیر فیلڈ کا دفاع نہ کریں، یا ہمارے پاس محفوظ ائیر فیلڈ موجود نہ ہوں، جہاں سینکڑوں، ہزاروں سویلین ائیر فیلڈ پر بیٹھے ہوں۔
اس نیوز کانفرنس میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ جنرل مارک ملی بھی موجود تھے۔ لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ کابل ائیرپورٹ سے امریکی شہریوں اور متاثرہ افغان باشندوں کا بحفاظت انخلا یقینی بنانے کے لئے طالبان کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
آسٹن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اب بھی کئی خدشات موجود ہیں۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ طالبان ان افراد کو کابل ایئرپورٹ آنے کی اجازت دے رہے ہیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ یا دیگر نوعیت کے قانونی کاغذات ہیں۔