امریکہ کے صدر کی قطر کے کردار کی تعریف
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی نے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی تجدید کے لیے بات چیت کی ہے۔
امریکی صدر نے قطری امیر سے گفتگو میں امریکی شہریوں، سفارتی عملے، حلیف ممالک کے شہریوں اور افغان باشندوں کے افغانستان سے جاری انخلا میں قطر کے کردار پر اظہار تشکر کیا۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ تاریخ میں یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جب لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر جہازوں کے ذریعے منتقل کیا جا رہا ہے جو کہ صدر کے بقول قطر کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ افغان امن عمل کے لیے مذاکرات میں قطر کے کردار کو بھی سراہا۔
کابل: ایئر پورٹ کے باہر 'سات افغان باشندوں کی ہلاکت'، داعش کے حملے کا بھی خطرہ
کابل میں امریکی سفارت خانے نے امریکی شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ حکومتی ہدایت کے بغیر ایئر پورٹ کا رُخ نہ کریں جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ کابل ایئر پورٹ کے باہر بھگدڑ مچنے کے باعث سات افغان باشندے ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ انتباہ ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب کابل ایئر پورٹ پر افغانستان سے نکلنے کے خواش مند شہریوں کا رش ہے اور ایئر پورٹ کے داخلی راستے پر شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق برطانوی وزارتِ دفاع کی جانب سے اتوار کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے تاہم وہ اس پر قابو پانے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں۔
ادھر ایک امریکی اہل کار نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ کابل ایئر پورٹ پر حملے کے خطرے کے پیشِ نظر امریکی فوج محفوظ انخلا کے لیے نئی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔
اُن کے بقول ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ ایئر پورٹ سے باہر مخصوص مقامات پر لوگوں کو جمع کیا جائے اور وہاں سے امریکی فوج سیکیورٹی حصار میں اُنہیں ایئر پورٹ تک لائے۔
ایک امریکی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر داعش کے حملے کے خطرے سے متعلق مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ خطرات سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
امریکی حکام مقامی طالبان رہنماؤں سے بھی اس بابت بات کر رہے ہیں تاکہ ایئر پورٹ کے قریب طالبان کی چوکیوں سے لوگوں کی آمدورفت آسان بنائی جائے۔
ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کی شکایات، 'افغان طالبان نے کمیشن بنا دیا'
افغان طالبان کی جانب سے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کرنے کی اطلاعات ہیں جو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر زور دے گا کہ وہ پاکستان کے خلاف حملے روک دیں اور اہلِ خانہ کے ہمراہ سرحد پار منتقل ہو جائیں۔
پیش رفت سے آگاہ اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی ذریعے نے وائس آف امریکہ کے ایاز گل کو اس کمیشن سے متعلق بتایا کہ پاکستان کی شکایات کے پیشِ نظر تین رُکنی کمیشن طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کی ہدایت پر حال ہی میں بنایا گیا ہے۔
ذرائع نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ کمیشن نے پاکستانی طالبان کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات حل کریں اور پاکستانی حکومت کی جانب سے عام معافی کے عوض اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ پاکستان چلے جائیں۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان میں سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
البتہ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ملک چھوڑ جانے والے اشرف غنی کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
پاکستان اور افغان طالبان نے اس پیش رفت پر تاحال کوئی باضابطہ مؤقف جاری نہیں کیا۔
جمعے کو پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا تھا کہ پاکستان، تحریکِ طالبان پاکستان کا معاملہ افغان طالبان کے سامنے رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے لیے کمرشل طیارے حاصل کر لیے
امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے افغانستان سے انخلا کے منتظر افغان اور امریکی شہریوں کے انخلا کا عمل تیز کرنے کے لیے کمرشل طیارے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع نے اس ضمن میں 'سول ریزرو ایئر فلیٹ' کو متحرک کرتے ہوئے 18 کمرشل طیارے حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔
'سول ریزرو ایئر فلیٹ' کے تحت امریکی ایئر لائنز کسی بھی ہنگامی صورتِ حال یا انخلا کے عمل میں تیزی لانے کے لیے امریکی محکمہ دفاع کو مخصوص تعداد میں طیارے مہیا کرنے کی پابند ہوتی ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ 'سول ریزرو ایئر فلیٹ' کے ذریعے محکمہ دفاع کو کمرشل طیاروں کے استعمال تک رسائی حاصل ہو گی۔
ان 18 طیاروں میں سے تین، تین طیارے امریکن ایئر لائنز، اٹلس ایئر، ڈیلٹا ایئر اور اومنی ایئر فراہم کریں گی جب کہ چار طیارے یونائیٹڈ ایئر اور دو ہواوئین ایئر فراہم کریں گی۔
امریکی حکام کے مطابق یہ طیارے کابل نہیں جائیں گے بلکہ کابل سے انخلا کے بعد قطر اور متحدہ عرب امارات کے فوجی اڈوں پر منتقل کیے جانے والے افراد کو امریکہ لانے کے کام آئیں گے۔