توقع نہیں تھی کہ افغان جنگ اتنی طویل ہو جائے گی: رچرڈ آرمیٹیج
گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکہ نے افغاستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت رچرڈ آرمیٹیج امریکی نائب وزیرخارجہ تھے۔ انہوں نے جنگ کے لیے اتحاد قائم کرنے میں پاکستان سمیت دیگر ممالک سے رابطے کئے۔ کیا انہیں توقع تھی کہ جنگ 20 سال چلے گی؟ دیکھیے رچرڈ آرمیٹیج کی سارہ زمان سے گفتگو۔
جی سیون اجلاس: طالبان کو تسلیم کرنے یا پابندیاں لگانے پر غور ہو گا
دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے حامل ملک (جی سیون) ایک ورچوئل اجلاس میں شریک ہو رہے ہیں جہاں وہ اس بارے میں اتحاد قائم رکھنے کا عزم کریں گے کہ آیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے یا ان پر پابندیاں عائد کرنی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے دو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جی سیون رہنماؤں کا یہ اجلاس منگل کو ہو گا۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس اجلاس کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق واشنگٹن میں غیر ملکی سفارت کاروں نے بتایا ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد واشنگٹن کی جانب سے رابطوں میں فقدان پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ورچوئل اجلاس کا مقصد تعاون ہے۔
یورپی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ جی سیون ممالک کے رہنما اس بات پر اتفاق کریں گے کہ آیا طالبان کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں، اور اگر انہیں تسلیم کرنا ہے تو وہ وقت کون سا ہو گا۔
سفارت کاروں کے بقول جی سیون ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کریں گے۔
یکم مئی کو افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلا شروع ہونے کے بعد طالبان کے انتہائی سرعت سے ملک پر قبضہ کرنے اور صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار کے بعد غیر ملکی حکومتیں تذبذب کا شکار ہیں اور ملک سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب بے چینی پیدا ہوئی ہے۔
افغان طالبان کی پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف مدد کرنے کی یقین دہانی
کابل پر قابض ہونے والے طالبان پاکستان مخالف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کو روکنے میں پاکستان کی کتنی مدد کر سکتے ہیں؟ بتا رہے ہیں وائس آف امریکہ کے نمائندے ایاز گل
کابل کے میوزک اسکول کا مستقبل خطرے میں: 'یہاں ساز خاموش ہیں'
طالبان کی حکومت 2001 میں ختم ہوئی تو افغانستان میں ہر جانب تباہی پھیلی ہوئی تھی اور آسٹریلیا سے احمد سرمست افغانستان میں ایک مشن پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا مشن اپنے ملک میں فنِ موسیقی کی بحالی تھا۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں احمد سرمست نے جو اسکول قائم کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ اس ادارے میں بے گھر اور یتیم بچے بھی موسیقی کی تربیت حاصل کر رہے تھے جس کا مقصد کابل سے رخصت ہونے والی رونقیں بحال کرنا تھا۔
گزشتہ ہفتے جب طالبان کابل میں داخل ہو رہے تھے تو آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں احمد سرمست خوف کے عالم میں یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ بعدازاں ان کے موبائل فون پر کالز کا تانتا بندھ گیا۔
سرمست کے اسکول میں موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے والے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور ان کے کئی سوال ہیں۔ کیا یہ اسکول بند ہو جائے گا؟ کیا طالبان ایک بار پھر موسیقی پر پابندیاں لگا دیں گے؟ کیا ان کے قیمتی ساز محفوظ رہیں گے؟
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے بات کرتے ہوئے احمد سرمست کا کہنا تھا کہ "کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کا دل ٹوٹا ہوا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ کابل میں طالبان کی واپسی اتنی غیر متوقع تھی کہ یہ واقعہ اچانک ہونے والا ایک دھماکہ محسوس ہوتا ہے جس نے ہر کسی کو صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔
احمد سرمست گزشتہ ماہ موسمِ گرما کی چھٹیاں گزارنے کابل سے آسٹریلیا گئے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جس ادارے کے قیام اور اسے آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ 20 برس سے وہ کام کر رہے تھے اچانک اس کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔