طالبان چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی کمیونٹی ان کی حکومت تسلیم کرے
طالبان نے منگل کے روز کہا کہ وہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان پر ان کے "جائز نمائندے" کی حکمرانی کو بین الاقوامی پذیرائی حاصل ہو گی اور ان کی سفارتی سرگرمیوں سے عالمی سلامتی کو فروغ اور افغان باشندوں کے ان مصائب کو کم کرنے میں مدد ملے گی جن کا سامنا کئی عشروں کی جنگوں کے نتیجے میں انہیں کرنا پڑ رہا ہے۔
طالبان کے کلچرل کمشن کے ایک سینئر رکن نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے وعدے کے مطابق ایک جامع اسلامی حکومت کے قیام کے لیے افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت جاری ہے اور اس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔
کلچرل کمشن کے سینئر رکن عبدالقہار بلخی کا کہنا تھا کہ"ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا یہ ایک منفرد موقع ہے اور نہ صرف ہمیں بلکہ پوری انسانیت کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے اور عالمی سلامتی سے لے کر آب و ہوا کی تبدیلی کے مسائل کے مقابلے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے"۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک ہفتے کے بعد کیا ہے۔ اس وقت ملک کے 34 میں سے 33 صوبوں پر طالبان کا کنٹرول ہے اور اکثر مقامات پر طالبان کو افغان فورسز کی جانب سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ناقدین طالبان کے حالیہ وعدوں پر شکوک و شبہات کا اظہارکرتے ہوئے اقوام متحدہ کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ان کے القائدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ساتھ مسلسل رابطے ہیں۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں "فوری سماعت کے ذریعے پھانسی دینے اور خواتین پر پابندیوں کی رپورٹوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔
بلخی کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری حکومت کو دنیا افغان عوام کی ایک جائز نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کرے گی۔ ہم نے ایک طویل جدوجہد، بے پناہ قربانیوں اور مشکلات کا سامنا کر کے اور غیر ملکی قبضے سے چھٹکارہ پا کر اپنا حق خود ارادیت حاصل کیا ہے۔
انہوں نے اس بات کو دہرایا کہ طالبان نے "شفاف انداز میں یہ واضح کر دیا ہے" کہ وہ کسی کو افغانستان کی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے دیں گے۔
بلخی نے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے اور رہے گا۔
'صدر بائیڈن 31 اگست کی ڈیڈ لائن تک انخلا مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہیں'
امریکی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے منگل کو کہا کہ صدر جو بائیڈن امریکی فوجیوں کے افغانستان سے نکلنے کی 31 اگست کی آخری تاریخ پر قائم رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس سے قبل، بائیڈن اور گروپ جی سیون کے رہنماؤں نے افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کے لیے ورچوئل کانفرنس میں شرکت کی۔ کئی رہنماؤں نے ان پر انخلا کے عمل کو آسان بنانے کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ آگے بڑھانے پر زور دیا۔
طالبان ڈیڈ لائن میں توسیع کو مسترد کر چکے ہیں۔
ورچوئل کانفرنس سے قبل برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا، "میں اپنے دوستوں اور اتحادیوں سے کہوں گا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہوں اور مہاجرین اور انسانی امداد کے لیے آگے بڑھیں۔"
انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ میں اب ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، اور ہزاروں مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے شہری اور افغانستان میں امریکہ کی مدد کرنے والے افغان باشندے اس توقع پر کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ جا رہے ہیں، تاکہ انہیں باحفاظت ملک سے نکالا جا سکے۔
وائٹ ہاؤس نے منگل کی صبح بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 21،600 افراد کو کابل سے نکال لیا گیا ہے، لیکن ملک چھوڑنے کے خواہش مند ہزاروں اب بھی وہاں موجود ہیں۔
وادی پنج شیر جہاں ابھی تک طالبان کی عمل داری قائم نہیں ہو سکی
افغانستان کے بیشتر حصوں پر کنٹرول کے باوجود وادی پنج شیر ایک ایسا علاقہ ہے جہاں اب تک طالبان کی عملداری قائم نہیں ہوسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں سابق کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کی سربراہی میں 'افغانستان کے قومی مزاحمتی محاذ' نے طالبان کی پیش قدمی روک دی ہے، اور اطلاعات کے مطابق، انہیں وادی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ سابقہ دور میں بھی جب احمد شاہ مسعود حیات تھے، طالبان کو کبھی وادی پنج شیر پر کنٹرول حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ تاہم 9/11 کے امریکہ پر حملے سے چند روز پہلے القائدہ کی جانب سے دہشت گردی کے ایک حملے میں انہیں ہلاک کردیا گیا تھا، جس کے بعد صورت حال میں وہ تبدیلی آئی جس کے نتیجے میں طالبان کی اس وقت کی حکومت ختم ہوئی۔
اس وقت بھی کم و بیش وہی صورت حال بن رہی ہے اور اس بار احمد شاہ مسعود کی جگہ انکا بیٹا احمد مسعود مزاحمت کی قیادت کر رہا ہے۔ تاہم، دوسری جانب طالبان کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو لڑائی بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ ایک جانب تو طالبان نے وادی کو باہر سے اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے اور دوسری جانب وادی کے اندر مزاحمت کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ مزاحمتی فرنٹ کے ترجمانوں کے بقول، وہ جنگ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔
فہیم دشتی فرنٹ کے رہنما احمد مسعود کے ایک قریبی معتمد اور ساتھی ہیں۔ وادی پنج شیر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فرنٹ کی کوئی شرائط نہیں ہیں، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ افغانوں کی جو اقدار ہیں، ان کی پاسداری کی جائے۔ ملک میں جمہوریت قائم کی جائے۔ انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔
حقیقت پسندانہ رویہ اپنا کر روس طالبان سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے
طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد روس اس فکر میں مبتلا ہے کہ وہ اپنے جنوب میں واقع افغانستان کی اس صورت حال سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے، جس میں مواقع بھی ہیں اور خطرات بھی۔
ہر چند کہ ماسکو نے طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے روسی حکام طالبان سے کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں؛ حتیٰ کہ جنگجو گروپ ماسکو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
ایسے ماحول میں جب افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا سے مغربی ممالک پریشان ہیں کہ اسلامی گروپ طالبان کے زیر اثر افغان خواتین اور لڑکیوں کو جبر کا سامنا ہو سکتا ہے، روس بھی صورت حال سے متعلق ایک نرم روی کا انداز اپنائے ہوئے ہے۔
طالبان کے کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے روسی مندوب ایمبیسیڈر واسیلی نیبینزایا نے صورت حال کے متعلق کہا کہ اس سے خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
افغانستان: 'خواتین و نوجوان پریشان ہیں، نیند کی گولیاں لے رہے ہیں'
انہوں نے کہا کہ کابل مین روس کا سفارتخانہ معمول کے مطابق کام کرتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ روس کا مفاد افغانستان میں ایک تیزتر پر امن حل، استحکام کے قیام اور جنگ کے بعد ملک کی بحالی سے وابستہ ہے۔
ماسکو میں ماضی کی روسی دراندازی سے بگڑنے والی صورت حال کی بھیانک یاد ابھی تازہ ہے۔