کیا افغانستان یورپ کے لیے تارکین وطن کا ایک نیا بحران پیدا کرے گا؟
چھ برس پہلے دنیا کے مختلف حصوں سے 12 لاکھ سے زیادہ تارکینِ وطن لاکھوں کلو میٹر کا سفر کر کے یورپ میں پناہ کے لئے پہنچے تھے تاکہ سیاسی سطح پر گہرے گھاؤ چھوڑنے والے بحران میں نئی زندگی تلاش کر سکیں۔ اور اب جب لاکھوں افغان باشندے طالبان سے بھاگ رہے ہیں تو سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آیا یورپ کو پناہ گزینوں کے ایک اور بحران کا سامنا ہو گا۔
متعدد یورپی لیڈروں نے حالیہ دنوں میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔
فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں نے 16 اگست کو ٹیلی ویژن پر ایک خطاب میں کہا تھا کہ طالبان سے بھاگنے والوں سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی طور پر منظم اور منصفانہ کوشش کی ضرورت ہو گی۔
اور ان کے الفاظ میں، ''یورپ اس صورتِ حال کے نتائج تنہا برداشت نہیں کر سکتا''۔
جرمنی میں حکمراں کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نے نشریاتی ادارے این ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم اس بارے میں واضح ہیں کہ 2015 کا اعادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ ہم افغانستان کا مسئلہ جرمنی کی جانب ترکِ وطن سے حل نہیں کر سکتے۔"
سن 2015 میں یورپ میں داخل ہونے والوں کی اکثریت شام میں جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کی تھی۔ ترکی میں داخل ہو کر یہ لوگ یورپی یونین کے رکن ملک یونان میں داخل ہو جاتے تھے اور یہ سفر انہیں بلقان یا اس سے بھی پرے مغربی یورپ لے جاتا۔
افغان تارکینِ وطن کے لئے یہی سفر بہت سی رکاوٹیں لئے ہوئے ہے۔ ترکی ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگا رہا ہے، جب کہ افغان تارکینِ وطن کے یورپ جانے کا یہ مرکزی راستہ ہے۔
اسی طرح یونان نے بھی ترکی کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔ بہت سے تارکینِ وطن جو ترکی سے کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچنا چاہتے ہیں وہ گنجایش سے زیادہ بھرے پناہ گزیں کیمپوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان 2016 کے معاہدے نے تارکینِ وطن کے لئے یہ سفر اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
افغانستان سے انخلا 31 اگست تک مکمل ہونے کی توقع ہے: بائیڈن
امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ 14 اگست سے اب تک 70 ہزار 700 افراد کا کابل سے انخلا کیا گیا ہے جن میں امریکی شہری، افغان باشندے اور اتحادی شامل ہیں۔
منگل کو قوم سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں معاملات اس وقت تیزی سے نمٹائے جا رہے ہیں، ایسے میں 31 اگست کی حتمی تاریخ کے اندر وہاں سے انخلا کا کام مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک متبادل منصوبہ بھی تیار کیا جا رہا ہے جس پر ضرورت پڑنے کی صورت میں عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔
ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں بائیڈن نے کہا کہ کابل سے انخلا کے کام میں طالبان ابھی تک متعلقہ اہل کاروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس رفتار سے انخلا کا کام جاری ہے، توقع ہے کہ جاری کام کو بر وقت نمٹایا جا سکے گا۔
تاہم، صدر نے کہا کہ داعش (خراسان) سے دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔ لیکن، انھوں نے واضح کیا کہ داعش (خراسان) طالبان کی سخت دشمن ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ اس سے قبل منگل ہی کے روز جی سیون ممالک کا ورچوئل اجلاس منعقد ہوا جس میں انہوں نے اقوامِ متحدہ، نیٹو اور یورپی یونین کے سربراہان کو أفغانستان سے جاری انخلا کے کام سے متعلق تفصیل پیش کی۔ بقول ان کے، میں نے انھیں بتایا کہ پچھلے 10 دن کے دوران ہم نے مجموعی طور پر 70 ہزار 700 افراد کو ملک سے نکالا ہے۔
افغان اسپیشل امیگرنٹس کو امریکی شہر جرسی سٹی میں بسانے کی تیاریاں
افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکی افواج کے لیے کام کرنے والے ہزاروں افغان شہری اسپیشل امیگرنٹ ویزا پروگرام کے تحت امریکہ پہنچ رہے ہیں۔ آئیے چلتے ہیں ندا سمیر کے ساتھ امریکی شہر جرسی سٹی جہاں مقامی تنظیم 'ویلکم ہوم جرسی سٹی' ان افغان خاندانوں کی میزبانی کے انتظامات کر رہی ہے۔
افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو کابل سے نکال لیا گیا
افغان خواتین کی فٹ بال ٹیم کو منگل کے روز کابل ایئرپورٹ سے نکال لیا گیا ہے۔ ٹیم کی ارکان کو رواں ماہ افغان حکومت کی معزولی کے بعد اپنے سوشل میڈیا پوسٹ اور ٹیم کے ساتھ لی گئی تصاویر ڈیلیٹ کرنے کو کہا گیا تھا۔
ٹیم کی سابقہ کپتان خالدہ پوپل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’پچھلے کئی دن شدید ذہنی دباؤ کے دن تھے، لیکن آج ہم فتح سے ہمکنار ہوئے ہیں۔‘‘
فٹ بال کے کھلاڑیوں کی عالمی یونین (ایف آئی ایف پی آر او) نے آسٹریلیا کی حکومت کا شکریہ ادا کیا، جس نے ان کھلاڑیوں اور ٹیم کے افسران اور ان کے خاندانوں کے افغانستان سے انخلا میں مدد دی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یونین نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کی فٹبال ٹیم کی نوجوان خواتین کھلاڑی بھی ہیں اور انسانی حقوق کی کارکن بھی۔ یونین کے مطابق، ان خواتین کو افغانستان میں خطرہ تھا اور یونین دنیا بھر میں اپنے کھلاڑیوں کی جانب سے بین الاقوامی برادری کی جانب سے فراہم کی گئی مدد پر شکرگزار ہے۔