روس نے بھی افغانستان سے شہریوں کا انخلا شروع کر دیا
روس نے کہا ہے کہ اس نے بدھ کو کابل افغانستان سے 500 سے زیادہ افراد کو نکال لیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روسی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ بدھ کو افغانستان سے روسی باشندوں کے علاوہ بیلاروس، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور یوکرین کے شہریوں کو بھی منتقل کیا گیا ہے۔
روسی وزارتِ خارجہ کے مطابق صدر ولادی میر پوٹن نے افغانستان سے شہریوں کے انخلا کا حکم دیا تھا اور اس مقصد کے لیے چار فوجی طیارے شہریوں کے انخلا کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔
افغانستان سے اب تک 4500 امریکی شہریوں کو نکال لیا گیا ہے، بلنکن
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی شہریوں کی تعداد اندازاً 6000 تھی، جن میں سے 4500 کا انخلا ہو چکا ہے، جب کہ باقی 500ا شہریوں کا انخلا کیا جانا باقی ہے۔
بقول ان کے، ''ان میں سے 500 امریکی شہریوں سے پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران رابطہ کیا جا چکا ہے، اور انہیں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وہ ایئرپورٹ تک پہنچ سکتے ہیں''۔
بدھ کے روز خصوصی پریس بریفنگ کے دوران بلنکن نے واضح کیا کہ گرین کارڈ ہولڈر انخلا کے زمرے میں نہیں آتے، اور امریکی شہری وہ افراد ہیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ موجود ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ایئرپورٹ پر موجود امریکی حکام طالبان سے رابطہ کرتے ہیں، اور جن لوگوں کے پاس قانونی کاغذات موجود ہیں انھیں ایئرپورٹ تک آنے کی اجازت ہے۔
صدر جوبائیڈن کے منگل کے خطاب میں انخلا سے متعلق 31 اگست کی حتمی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے، وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری یہی کوشش ہے کہ تب تک انخلا کا جاری کام مکمل کیا جائے۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ امریکی شہریوں کو بحفاظت افغانستان سے باہر نکال لیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک ان افغان اتحادیوں کا تعلق ہے جن میں ممکن ہے کچھ تعداد ملک سے باہر نہ آ پائے، ان کی مدد جاری رکھی جائے گی کہ وہ 31 اگست کی حتمی تاریخ کے بعد بھی افغانستان سے باہر آ سکیں۔ اس سلسلے میں طالبان نے یقین دہانی کرائی ہےکہ افغان باشندوں کے بحفاظت انخلا میں تعاون کیا جائے گا۔
بلنکن نے کہا کہ کابل سے انخلا کا کام مستعدی سے جاری ہے۔
افغان خواتین کو ہراساں کئے جانے کے واقعات۔ چھان بین کریں گے، طالبان ترجمان
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے فوراً بعد سب سے زیادہ تشویش خواتین میں پائی گئی جنہیں طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں سخت جبر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ طالبان نے یہ بیانات بھی دیئے کہ خواتین کو شرعی حدود میں کام کرنے کی آزادی ہو گی مگر اس اسلامی گروپ کے ماضی کی روشنی میں افغان شہریوں کے لئے ان کے کسی بھی دعوے پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی عائشہ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان کے ترجمان کے منگل کے اس بیان کے باوجود کہ خواتین کو محفوظ بنانے کے لئے پالیسی بنائی جا رہی ہے، افغانستان کے دو صوبوں میں خواتین سکول ٹیچرز اور دیگر ملازمین نے طالبان جنگجوؤں کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی اطلاعات دی ہیں۔
ملک کے شمال میں صوبے تخار اور کابل میں خواتین نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ان پر لباس اور کام سے متعلق نئی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔
تخار میں ایک خاتون ٹیچر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کا رویہ خواتین کے ساتھ بہت جارحانہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خواتین 'چادری' پہنیں، جو سر سے پاؤں تک کا پہناوا ہے اور جس میں دیکھنے کے لئے چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں۔
اس ٹیچر نے مزید بتایا کہ صوبے تخار میں طالبان نے خواتین کے ساتھ بے حد سختی کی ہے، حتیٰ کہ انہیں سیاہ برقعہ پہننے کی بھی اجازت نہیں دی اور نہ ہی انہیں محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔
طالبان اپنے آپ کو اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تجزیہ کار
وہ کہتی ہیں سب کو کسی نہ کسی وقت گھر سے باہر جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور محرم تمام وقت دستیاب نہیں ہو سکتے۔
وہ کہتی ہیں کہ طالبان نے خواتین اساتذہ کے لڑکوں کو تعلیم دینے پر پابندی عائد کر دی ہے، جب کہ طلباء اور طالبات کو الگ الگ کر کے ان کا نصاب بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ان کے مطابق نصاب میں کلچر اور کھیلوں سے متعلق مضامین تبدیل کر کے ان کی جگہ قرآن اور سیرت کے مضامین داخل کئے گئے ہیں جب کہ نصاب میں یہ طالبان کے ملک پر کنٹرول سے پہلے بھی موجود تھے۔
طالبان اپنے آپ کو اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تجزیہ کار
افغانستان کے بیشتر حصوں پر طالبان کا کنٹرول قائم ہو چکا ہے۔ صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی معاونین ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور طالبان نے ایک آدھ جگہ کے علاوہ تقریباً پورے ملک میں نظم و نسق کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ لیکن صورت حال اس لحاظ سے واضح نہیں ہے کہ آئندہ کے لئے ان کے منصوبے کیا ہیں۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں، طالبان دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب پہلے والے طالبان نہیں ہیں اور ان کی سوچ بدل چکی ہے۔ وہ خود کو انتہا پسند کی بجائے اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا انہیں اسی حیثیت میں تسلیم کرے۔ لیکن بظاہر دنیا کے بہت سے ممالک، خاص طور پر مغرب ان کے اس موقف کو پوری طرح تسلیم کرتا نظر نہیں آ رہا اور وہ الفاظ کے ساتھ ان کے اقوال کا عملی اطلاق بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب نہ صرف یہ کہ سابقہ دور کے سرکاری افسران اور عہدیداران بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں، بلکہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں افغانستان کے سفارتی مشنوں میں بھی بدستور وہی لوگ کام کر رہے ہیں جو سابقہ حکومت کے مقرر کردہ ہیں۔ اس حوالے سے طالبان کی پالیسی کیا ہو گی؟ اس بارے میں واضح طور پر کوئی بات سامنے نہیں آ رہی ہے۔
محمد صادق خان افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی ایلچی ہیں اور حکومت پاکستان کی جانب سے وہ افغانستان سے متعلق امور کی انجام دہی کے ذمہ دار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی ابھی افغانستان ہو کر آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان کی صورت حال کے دو پہلو ہیں۔ اس کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ سیکیورٹی کے جتنے خطرات پہلے تھے اب اتنے نہیں رہے ہیں۔ بازار اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بیشتر کھل گئے ہیں۔ لوگ آزادی سے گھروں سے نکل رہے ہیں۔ آ جا رہے ہیں یہاں تک کہ جو تھوڑے بہت غیر ملکی بھی رہ گئے ہیں، وہ بھی آزادی سے نکل رہے ہیں۔ اور امن و امان کی صورت حال بھی بہتر نظر آتی ہے۔