امریکی کانگریس کے دو ارکان کا دورہ کابل، "مقصد انخلا کے کام کا جائزہ لینا تھا"
امریکی کانگریس کے دو ارکان نے منگل کے روز کابل کا غیراعلانیہ دورہ کیا۔ بقول ان کے، دورے کا مقصد انخلا کے جاری کام کا جائزہ لینا تھا، تاکہ امریکی صدر جو بائیڈن پر 31 اگست کی حتمی تاریخ میں توسیعے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے تاکہ افغانستان میں موجود باقی ماندہ امریکی فوج کو ملک سے نکالنے میں مدد مل سکے۔
میساچیوسٹس کی ریاست سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ رکن ایوانِ نمائندگان، سیٹھ مولٹن اور ریاست مشی گن کے ری پبلیکن پارٹی کے رکن کانگریس، پیٹر مائجر نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ''ہم نے اس دورے کو خفیہ رکھا۔ اس کے بارے ہم نے تب بتایا جب ہم واپس روانہ ہو رہے تھے، تاکہ کسی کو زحمت نہ ہو، چونکہ ہمارا مقصد خاموشی سے معلومات اکٹھی کرنا تھا''۔
ان دونوں قانون سازوں نے، جو ایوانِ نمائندگان کی مسلح افواج کی قائمہ کمیٹی کے رکن رہے ہیں، یہ بیان چارٹر فلائیٹ کے ذریعے کابل سے روانگی سے قبل جاری کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں صورت حال کا خود جائزہ لینے اور موجود کمانڈروں سے گفتگو کرنے کے بعد ''ہمیں نہیں لگتا کہ ہم تمام منتظر افراد کو یہاں سے بر وقت نکال سکیں گے''۔
بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ انھیں توقع ہے کہ انخلا کا مشن اس ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔
ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر، نینسی پیلوسی نے منگل کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ ایوانِ نمائندگان کے ارکان کی جانب سے خطے کا سفر کرنے سے انخلا کے جاری کام میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے، جو نہیں ہونی چاہیے۔
پیلوسی کے بقول، صورت حال کی ہنگامی نوعیت کے پیش نظر یہ بات قابل فہم ہے کہ کچھ ارکان افغانستان اور ملحقہ علاقوں کا سفر کرنا چاہیں گے اور وہ اس معاملے کو اولیت دینا چاہتے ہیں کہ زمینی صورت حال جان سکیں۔ تاہم، میں یہ بات دہراؤں گی کہ محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ نے ایوان کے ارکان سے درخواست کی ہے کہ وہ اس خطرناک موڑ پر افغانستان یا اس علاقے کا سفر نہ کریں۔ افغانستان سے انخلا کا معاملہ امریکی فوج اور سفارتی ذمہ داران کا مکمل دھیان چاہتا ہے، تاکہ اس کام کو بر وقت نمٹایا جا سکے''۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے مولٹن اور مائجر کے دورے کو غیر مفید قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل فوج کی جانب سے دھیان مرکوز کرنے میں حائل ہوا، جن کا کام ایئرپورٹ کی حفاظت برقرار رکھنا ہے، تاکہ انخلا کے لیے پروازوں کو سہولت فراہم کی جا سکے۔
اس ماہ کے اوائل میں جب طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا، لاکھوں لوگ افغانستان سے باہر نکلنے کی جستجو کرتے نظر آئے۔
اب تک 70،000 سے زائد افراد کو ملک سے باہر نکالا جا چکا ہے۔ تاہم، اب بھی ایئرپورٹ کے علاوہ، کابل اور افغانستان کے دیگر مقامات پر لوگوں کی بھیڑ ہے، جو بے چینی سے انخلا کی منتظر ہے۔
ادھر بدھ ہی کے روز ساؤتھ کوریا نے تقریباً 380 افراد کے انخلا کے کام میں مدد دینے کا اعلان کیا ہے، جنھوں نے ان کے ملک کی جانب سے افغانستان میں کیے جانے والے کام میں جنوبی کوریا کی مدد کی تھی۔
'افغانستان میں طالبان کی حکومت بنتی ہے تو امریکہ اسے روک نہیں سکے گا'
واشنگٹن میں کچھ ماہرین کابل پر طالبان کے کنٹرول کو پاکستان کی جیت قرار دے رہے ہیں مگر کیا آج کے طالبان پاکستان کے اسی طرح حامی ہیں جیسے 90 کی دہائی میں تھے؟ طالبان کی کامیابی پاکستان کے لیے کیا مواقع اور مشکلات پیدا کر سکتی ہے؟ دیکھیے سابق پاکستانی سفارت کار آصف درانی سے سارہ زمان کی گفتگو۔
افغانستان سے ہندوؤں اور سکھوں کا انخلا، بھارت میں متنازع شہریت بل پھر زیرِ بحث
بھارت کی جانب سے افغانستان سے اپنے شہریوں، افغان ہندوؤں اور سکھوں کو بحفاظت نکالنے کا عمل جاری ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 800 سے زائد افراد کو کابل سے بھارت لایا جا چکا ہے جن میں افغانستان میں بھارت کے سفیر اور سفارتی عملے کے لوگ بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اب تک 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت آ چکے ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضے اور پیدا شدہ بحران کے بعد جو لوگ افغانستان سے پناہ گزین کی حیثیت سے بھارت آنا چاہتے ہیں وہ صرف الیکٹرونک ویزا یا ای ویزا کے توسط سے ہی آ سکتے ہیں۔
ادھر مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری کے مطابق بھارتی شہریوں کے ساتھ کابل میں پھنسے ہوئے 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت پہنچ گئے ہیں۔
افغان طالبان کے خلاف پنج شیر میں مزاحمت کیوں ہو رہی ہے؟
افغانستان کا صوبہ پنج شیر 90 کی دہائی میں طالبان مخالف شمالی اتحاد کا مضبوط گڑھ ہے۔ مقامی افراد کے ذریعے ملنے والی معلومات کے مطابق طالبان جنگجو پنج شیر کے داخلی راستوں پر موجود ہیں۔ یہ علاقہ سیاسی، عسکری اور جغرافیائی لحاظ سے کتنا اہم ہے؟ جانتے ہیں وی او اے کے شمیم شاہد کی سارہ زمان سے گفتگو میں۔