کابل ایئرپورٹ پر داعش کا حملہ خطے کے ممالک کو طالبان کے ساتھ تعاون پر مائل کر سکتا ہے، تجزیہ کار
کابل ایئر پورٹ کے قریب جمعرات کو ایک خود کش حملے میں درجنوں لوگ مارے گئے جن میں امریکی فوجی اہلکار، عام شہری اور بعض رپورٹوں کے مطابق طالبان بھی شامل تھے۔
یہ حملہ جس کی ذمہ داری کا دعویٰ اسلامک اسٹیٹ خراسان (IS-K) نے کیا ہے، ایسے وقت کیا گیا جب کہ ایک جانب طالبان وادی پنج شیر اور چند مقامات پر مزاحمت کے سوا تقریباً پورے ملک کا کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور دوسری طرف نہ صرف افغانستان میں مقیم غیر ملکیوں کا وہاں سے انخلا جاری ہے، بلکہ عام افغان شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئرپورٹ پر جمع تھی، جہاں افرا تفری کی صورت حال دیکھنے میں آئی۔
داعش کا حالیہ حملہ ماضی کا تسلسل ہے
ڈاکٹر خرم اقبال کا تعلق اسلام آباد کی ڈیفینس یونیورسٹی کے انسداد دہشت گردی کے شعبے ہے۔ انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ کابل میں ہونے والا خوفناک حملہ کس رجحان اور آنے والے دنوں میں کس صورت حال کی جانب اشارہ کرتا ہے، ڈاکٹر خرم کا کہنا تھا کہ، ''یہ حملہ کوئی نیا رجحان نہیں ہے بلکہ گزشتہ تقریباً سات سال سے جاری سلسلے کی ایک کڑی ہے''۔
کابل ایئرپورٹ پر حملے میں صرف ایک دہشت گرد ملوث تھا، امریکی فوج
امریکی وزارت دفاع نے جمعہ کو کہا کہ کابل ایئرپورٹ پر خودکش حملہ ایک شخص نے کیا تھا نہ کہ دو افراد نے جیسا کہ پہلے سمجھا جا رہا تھا۔ جمعرات کو کابل کے ہوائی اڈے کے قریب حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں امریکی فوجی اہل کار بھی شامل تھے۔
امریکی فوج کے جنرل ہانک ٹیلر نے پنٹاگان کی میڈیا بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا، "یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس طرح کے بہت متحرک نوعیت کے واقعات میں بعض اوقات غلط رپورٹنگ یا کسی اور وجہ سے الجھن پیدا ہو سکتی ہے۔"
جمعرات کے انتہائی ہلاکت خیز بم دھماکے کے ایک روز بعد جمعے کو جب انخلا کی پروازیں دوبارہ شروع ہوئیں تو ایئرپورٹ پر پہلے کی طرح لوگوں کے ہجوم دکھائی دیے۔
وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ کہا ہے کہ جمعہ کے شام ان افواہوں کے بعد لوگ منشتر ہو گئے کہ ایئرپورٹ پر ایک اور دہشت گرد حملہ ہونے والا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایک رپورٹر نے جمعہ کی شام اس علاقے کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ گلیاں زیادہ تر خالی تھیں اور طالبان کی سکیورٹی ایئرپورٹ کے قریب جانے سے لوگوں کو روک رہی تھی۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کا کابل میں موجود شہریوں کے لیے انتباہ، مزید دھماکوں کا اندیشہ
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے افغانستان میں مقیم امریکیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ سیکیورٹی خدشات کے سبب کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا رخ نہ کریں۔
وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ اگر وہ ایئر پورٹ کے چار دروازوں کے قریب موجود ہیں تو وہ فوری طور پر وہاں سے چلے جائیں۔
یہ تنبیہ رواں ہفتے جمعرات کو ہونے والے بم دھماکوں کے بعد کی گئی ہے۔ جس میں 170 سے زائد افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان جان کربی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس ایئر پورٹ پر مزید حملوں کی باوثوق اطلاعات موجود ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے حکام نے وائس آف امریکہ کو کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بتایا کہ امریکی شہریوں اور امریکہ کے مستقل رہائشیوں کو نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب پینٹاگان کا کہنا ہے کہ جمعرات کو ہونے والے دھماکے ایک خود کش بمبار نے کیے تھے نہ کے دو نے جیسا کہ ابتدائی طور پر سمجھا جا رہا تھا۔
افغانستان میں داعش کے خلاف امریکی ڈرون حملہ، کارروائیوں کا مبینہ منصوبہ ساز ہلاک
امریکہ کی فوج نے داعش خراسان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی ایک فضائی کارروائی کی ہے جس میں شدت پسند تنظیم داعش کی کارروائیوں کے مبینہ منصوبہ ساز کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
وائس آف امریکہ کی محکمۂ دفاع کی نامہ نگار کارلا بیب کے مطابق امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان بل اربن نے بتایا ہے کہ ڈرون طیارے سے کی جانے والی یہ فضائی کارروائی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں کی گئی۔
ابتدائی شواہد کے مطابق فضائی کارروائی میں 'ہدف' کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
محکمۂ دفاع کے ترجمان کے مطابق کارروائی میں کسی شہری کی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیلات ابھی موصول ہو رہی ہیں۔
ابتدائی رپورٹس میں یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ہلاک ہونے والا داعش کا مبینہ منصوبہ ساز کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر خودکش حملے کی پلاننگ میں ملوث تھا یا نہیں۔