رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

02:45 3.9.2021

کیا افغان جنگ کا خاتمہ امریکہ کے لیے نیک شگون ہے؟

افغانستان میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع بہت محدود ہیں۔

اب جبکہ افغان جنگ ختم ہو گئی ہے اور امریکی اور دوسرے ملکوں کی افواج وہاں سے نکل چکی ہیں، یہاں امریکہ میں معاشی امور کے ماہرین یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ سمیت ساری دنیا کی معیشتوں پر کرونا وائرس کی وبا کے سبب پہلے ہی بہت زیادہ دباؤ ہے، کیا امریکی معیشت کے لئے یہ ایک نیک شگون ہے۔

ڈاکٹر ظفر بخاری شکاگو یونیورسٹی میں معاشیات اور مارکٹنگ پڑھاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ کا بہت زیادہ پیسہ افغانستان میں پہلے ہی خرچ ہو چکا ہے جسے 'ڈائریکٹ کوسٹ' کہا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کی ایک تازہ تحقیق شائع ہوئی ہے جس کے مطابق آنے والے دنوں میں ایک 'ان ڈائریکٹ کوسٹ' بھی ادا کرنا پڑےگی۔

براؤن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق، اس جنگ کی 'ڈائریکٹ' اور 'ان ڈائریکٹ' لاگت پانچ اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر پڑے گی، جس میں سے نصف سے زیادہ تو پہلے ہی خرچ ہو چکی ہے۔

اس ریسرچ کے مطابق، مزید اخراجات میں ان ہزاروں زخمی امریکی فوجیوں کے علاج معالجے اور انکی پینشن وغیرہ فراہم کرنے کی قیمت ہو گی جو اس جنگ میں زخمی اور معذور ہوئے اور دوسرے اخراجات ان ہزاروں لوگوں کو امریکہ یا دنیا کے دوسرے ملکوں میں آباد کرنے پر ہونگے، جنہیں امریکہ نے افغانستان سے ایئر لفٹ کیا ہے۔

چناںچہ انہوں کہا کہ براؤن یونیورسٹی اور واٹسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افئیرز کی تحقیق کے مطابق، افغانستان کی جنگ ختم ہو جانے کے باوجود اس پر اخراجات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا ان حالات میں اس جنگ کے ختم ہونے کا امریکی معیشت پر فوری طور سے کوئی بھرپور اثر پڑتا نظر نہیں آ رہا، خاص طور سے ایسے میں جبکہ امریکہ میں اس انفرا اسٹرکچر کی درستگی کے لئے جو شکست و ریخت کا شکار ہے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کوئی دو ٹریلین ڈالر کے پیکیج پر تقریباً راضی ہو چکے ہیں جو کہ ملک کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ بہرحال یہ معیشت پر ایک اضافی بوجھ ہو گا۔

ڈاکٹر زبیر اقبال ورلڈ بنک کے ایک سابق عہدیدار ہیں اور مڈ ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوّل یہ کہ گزشتہ بیس سال میں اس جنگ پر بھاری اخراجات ہوئے جس کے لئے قرض لینا پڑا اور اس قرض پر سود ادا کرنا پڑا اور ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ٹیکسیشن اور سہولتوں میں کمی کرنی پڑی۔ لیکن، اہم بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ پر اخراجات میں کمی ہوتی گئی اور 20-21 کے بجٹ میں اس جنگ کی مد میں صرف بیس بلین ڈالر مختص کئے گئے تھے۔ جو بہت چھوٹی رقم ہے تو اب اس جنگ کے اختتام سے معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

لیکن یہ ضرور ہوگا کہ اب وہ رقم دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جائے گی۔ خاص طور سے ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کی مد میں اس رقم کو استعمال کیا جائے گا جو جنگ کے دوران لئے گئے سو یہ بچت امریکی معیشت پر براہ راست اثرانداز نہی ہوگی۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ معاشی نشوونما توقع سے کم رہے۔ لیکن اب جبکہ جنگ ختم ہو چکی ہے تو اسکے معیشت پر اثرات کم سے کم ہوتے جائیں گے اور وسائل کو ملکی ضروریات کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس جنگ کے ختم ہونے سے امریکہ کے اخراجات میں جو کمی ہو گی اس سے اسکی دوسروں کی مالی مدد کرنے کی استعداد میں اضافہ ہوگا اور یہ سافٹ پاور کیا دنیا کے معاملات میں اسکےزیادہ اثر و رسوخ کا سبب بنے گی۔ ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ کسی ملک کے جو اسٹریٹجک مفادات ہوتے ہیں وہ اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ اخراجات کتنے کرنے ہیں کہاں کرنے ہیں اور کب کرنے ہیں۔

اور انہوں نے کہا جہاں تک وہ سمجھتے ہیں ، امریکہ کے اسوقت جو اسٹریٹیجک مفادات ہیں انکی بنیاد پر تو کوئی خاطر خواہ اخراجات میں اضافہ نظر نہیں آتا، اسلئے کہ امریکی مفادات یہ ہیں کہ امریکہ کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور چینی یا روسی اثر و رسوخ کو محدود کیا جائے اور اس مد میں اخراجات کا تعین پہلے ہی ہو چکا ہو گا اور ہوتا رہے گا۔ اسلئے انکے خیال میں مجموعی معاشی صورت حال میں فوری طور پر کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں ہے۔

02:50 3.9.2021

داعش خراسان کے خلاف کارروائی کے لیے طالبان سے بات ہو سکتی ہے؛ لیکن زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں؟

داعش کے حملے کے بعد کابل ایئرپورٹ کے قریب سے دھواں اٹھ رہا ہے۔
داعش کے حملے کے بعد کابل ایئرپورٹ کے قریب سے دھواں اٹھ رہا ہے۔

امریکی عہدے داروں نے اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا کہ افغانستان میں داعش کے دہشت گرد دھڑے سے درپیش خدشات سے نمٹنے کے لیے طالبان کے ساتھ بات کرنے کا امکان موجود ہے؛ حالانکہ حکام نے انتباہ کیا ہے کہ اس ضمن میں مدد کی بہت زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ، جنرل مارک ملی کے بقول ''یہ ممکن ہے''۔ انھوں نے یہ بات منگل کے روز پینٹاگان میں اخباری نمائندوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد وہ پہلی بار نامہ نگاروں سے بات کر رہے تھے۔

ملی نے مزید کہا کہ ''ہمیں یہ نہیں معلوم کہ خود طالبان کا مستقبل کیا ہے، لیکن میں اپنے ذاتی تجربے سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ یہ گروپ ماضی میں انتہائی بے رحم رہ چکا ہے؛ آیا وہ تبدیل ہو گا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا''۔

داعش خراسان کے نام سے موسوم گروپ سے نبردآزما ہونے کے سوال پر امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے امکان کو زیادہ اہمیت نہیں دی، حالانکہ حالیہ دنوں میں کابل سے امریکی انخلا کے مشن کے دوران امریکی فوجوں اور طالبان کمانڈروں کے مابین رابطہ موجود تھا۔

آسٹن نے کہا کہ ''ہم طالبان کے ساتھ انتہائی غیر اہم امور پر بات کرتے رہے ہیں اور یہ معاملہ محض اس نوعیت کا تھا کہ ہماری کوشش تھی کہ جتنے زیادہ افراد باہر نکل سکیں، نکال لیے جائیں''۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ ''اِس بات کے حق میں، میں کوئی منطقی دلیل پیش نہیں کرنا چاہوں گا''۔

بیس سالہ جنگ کے دوران امریکہ اور طالبان کے درمیان عدم اعتماد جاری رہا، داعش خراسان کے معاملے پر یہ بات زیر غور لائی جاتی رہی ہے کہ آیا اس سلسلے میں طالبان سے تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ ایسے میں جب انخلا کے مشن کے مراحل مکمل ہونے کے قریب تھے، کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے حوالے سے طالبان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ رابطے پر رضامندی کا اظہار واضح تھا۔ مزید برآں، امریکہ اور طالبان دونوں ہی داعش کے اس دھڑے کو اپنا مشترکہ دشمن تصور کرتےہیں۔

مزید تفصیلات

02:55 3.9.2021

لاٹری ویزہ جیتنے والے سینکڑوں افغان شہری امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پھنس گئے

کابل ایئرپورٹ پر ملک چھوڑنے والوں کا ہجوم
کابل ایئرپورٹ پر ملک چھوڑنے والوں کا ہجوم

امریکہ کا لاٹری ویزہ پروگرام ان ممالک کے شہریوں کے لیے ہے جن کے تارکین وطن امریکہ میں کم تعداد میں ہیں۔

لیکن افغانستان پر طالبان کے قبضے اور وہاں سے تمام امریکی افواج کے انخلا کے بعد ویزہ لاٹری جیتنے والے افغان شہری اس خوف میں ہیں کہ شاید وہ کبھی بھی اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ کی طرف قانونی ہجرت نہیں کر سکیں گے۔

کابل میں رہنے والی ایک 27 سالہ خاتون، جو خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن بھی ہیں، لاٹری ویزہ جیتنے والے افراد میں شامل ہیں۔ اپنے تحفظ کے پیش نظر انہوں نے وائس آف امریکہ سے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کی ہے۔ ہم انہیں 'ایس' کا نام دے رہے ہیں۔

ایس کہتی ہیں کہ انہیں پہلی بار امریکی حکومت نے 2020 میں مطلع کیا تھا کہ ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام میں ان کا نام بھی نکل آیا ہے، جسے عام طور پر گرین کارڈ لاٹری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس پروگرام کی امریکی کانگریس نے 1990 کے امیگریشن ایکٹ کے تحت منظوری دی تھی، تاکہ امریکہ میں تارکین وطن کے تنوع میں اضافہ کیا جا سکے۔

ویزہ لاٹری پروگرام جیتنے کی خوشی

'ایس' نے کہا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ دنیا بھر سے سالانہ بنیاد پر منتخب کیے جانے والے 55،000 لوگوں میں شامل ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوئی۔ لیکن امریکہ جانے سے قبل امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں کے ساتھ انٹرویوز، پس منظر کی جانچ پڑتال اور دیگر بہت سی دستاویزات کی ضرورت تھی۔

ویزہ لاٹری پروگرام کے خاتمے کے لیے کانگریس میرا ساتھ دے، صدر ٹرمپ

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے مطلوبہ کاغذات فراہم کرنے کے بعد امریکی سفارت خانے میں اپنے انٹرویو کا انتظار شروع کر دیا جس میں عموماً چند ماہ لگ جاتے ہیں۔

بقول ان کے، "جب مجھے امریکی حکومت کی طرف سے انٹرویو کا خط ملا تو میں دوبارہ بہت خوش ہوئی کہ اب منزل بہت قریب آ گئی ہے''۔

"میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے کی وجہ سے طالبان سے خوف زدہ تھی۔ اس لیے میں نے اپنے بھائی کے ساتھ دوسری جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مگر پھر یہ سب کچھ ایک خواب بن گیا"۔

"بدقسمتی سے، کابل میں امریکی سفارت خانہ 31 اگست کو بند ہو گیا۔ اب ہمیں معلوم نہیں ہے کہ انٹرویو کے لیے کہاں جانا ہے یا ویزا کہاں سے لینا ہے۔ ہم افغانستان میں خطرے میں ہیں۔ لیکن میں افغانستان چھوڑنے کی کوشش کرتی رہوں گی"۔ انہوں نے ایک آڈیو پیغام میں بتایا۔

ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام مسائل کا شکار

'ایس' اور دوسروں کے لیے اس بڑے دھچکے سے بہت پہلے، ڈائیورسٹی ویزہ پروگرام کا ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ لیکن 2017 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے متعدد اقدامات کے ذریعے مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کو امریکہ آنے سے روک دیا۔ پھر مارچ 2020 میں، ٹرمپ نے کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں قونصل خانے بند کر دیئے۔اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یہ کہتے ہوئے کچھ تارکین وطن کے ویزوں پر پابندی لگا دی کہ ایسا کرنا امریکی معیشت کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں ویزہ لاٹری جیتنے والے سینکڑوں افغان باشندوں کو امریکہ آنے سے روک دیا گیا۔

مزید تفصیلات

01:17 4.9.2021

کیا افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی؟

خواتین پر مشتمل افغانستان کا آرکسٹرا، فائل فوٹو
خواتین پر مشتمل افغانستان کا آرکسٹرا، فائل فوٹو

افغانستان میں طالبان کے قبضے سے جہاں ترقی پسند، آزاد خیال طبقات سمیت اقلیتوں اور خواتین کو اپنی شخصی اور مذہبی آزادی کے حوالے سے دھچکا پہنچا ہے وہیں موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی مایوسی چھا گئی ہے۔ اور سُر بکھیرتا یہ گروہ اگر مکمل طور پر خواتین پر مبنی ہو تو مایوسی کی کیفیت بھی دوگنی ہی ہوگی۔

افغانستان میں تبدیلی کی علامت سمجھا جانے والا 'آل فیمیل آرکسٹرا' یعنی صرف خواتین پر مبنی آرکسٹرا گروپ، شکستِ کابل کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے روپوش ہے۔

گو کہ طالبان نے انتقامی کارروائیوں سے اجتناب کا عام اعلان کیا ہوا ہے مگر طالبان کے ماضی کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین آرکسٹرا کی کئی ارکان نے روپوش ہونے سے پہلے اپنے میوزک کے آلات توڑ ڈالنے کے ساتھ ساتھ آرکسٹرا سے تعلق ظاہر کرنے والی تمام دستاویزات بھی جلا ڈالیں۔

افغانستان کے مشہور آل فیمیل آرکسٹرا کا چہرہ سمجھی جانے والی چوبیس سالہ نگین خپلواک اس وقت اپنے گھر میں تھیں جب انہیں طالبان کے کابل کے مضافات تک پہنچ جانے کی اطلاع ملی۔ نگین یہ اطلاع ملتے ہی شدید مضطرب ہوگئیں۔ نگین نے طالبان کی گزشتہ حکومت میں موسیقی اور خواتین پر کام کرنے کی پابندی کی خبریں سن رکھی تھیں۔

نگین یہ بھی سن چکی تھیں کہ اپنی حکومت کے اختتامی دنوں میں طالبان نے ان افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا تھا جو ان کے نزدیک طالبان طرز کے شریعہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

یہی کچھ سوچتے ہوئے پہلے نگین نے اپنے کمرے میں سجے ڈرمز چھپائے۔ پھر انہوں نے اپنے آرکسٹرا کی خبروں پر مبنی تمام اخباری تراشے اور آرکسٹرا میں شمولیت کی ساری تصاویر جمع کیں اور انہیں جلا دیا۔

اسلام آباد میں افغان آرکسٹرا کی پرفارمنس

خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے نگین نے بتایا کہ یہ سب کرتے ہوئے ''بہت برا محسوس ہورہا تھا۔ یہ ایسا تھا جیسے میں اپنی زندگی کی بہت اہم یادداشتیں راکھ میں تبدیل کر رہی ہوں''.

نگین افغانستان سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزاروں شہریوں میں سے ایک ہیں اور اب امریکہ پہنچ چکی ہیں۔ نگین اس لحاظ سے خوش نصیب رہیں کہ اب انہیں طالبان کی انتقامی کارروائی کی فکر نہیں مگر ان کی باقی ساتھی وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔

افغانستان کا زہرہ آرکسٹرا

فارسی میں موسیقی کی دیوی کے نام سے منسوب 'زہرہ' کے نام سے کام کرنے والے اس آرکسٹرا میں کابل کے یتیم خانے میں پلنے والی تیرہ سے بیس سال کی عمر کی لڑکیاں شامل تھیں۔

ایسا نہیں تھا کے سال دو ہزار چودہ میں تشکیل پانے والے اس آرکسٹرا کو ملک کے قدامت پسند حلقوں سے تنقید کا سامنا نا ہو۔ مگر تنقید سننا کسی بھی قسم کی جسمانی سزا یا موت سے بہت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آرٹسٹ اپنا کام دلیری سے کرتی رہیں اور طالبان راج کے اختتام کے کافی بعد بننے والے اس گروپ کو دنیا بھر میں افغان خواتین کی آزادی کی علامت کے طور پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔

سر پر سرخ حجاب لئے، ہاتھوں میں مغربی موسیقی کے آلات سمیت رباب پکڑے مغربی اور افغان موسیقی کے سُر بکھیرتی یہ لڑکیاں سڈنی اوپیرا ہاؤس ہو یا ڈیووس میں ہونے والا ورلڈ اکنامک فورم، ہر جگہ داد حاصل کر چکی ہیں۔

کیا افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی؟

افغانستان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے باہر، جہاں کبھی یہ لڑکیاں موسیقی پریکٹس کیا کرتی تھیں، آج طالبان تعینات ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں ریڈیو اسٹیشنز کو موسیقی بند کرنے کے احکامات بھی مل چکے ہیں۔

میوزک انسٹیٹیوٹ کے بانی احمد سرمست نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ افغانستان ایک بار پھر پتھر کے دور میں پہنچ جائے گا''۔ ان کے مطابق، 'زہرہ آرکسٹرا' آزادی اور خواتین کے بااختیار ہونے کی علامت تھا اور اس کی ارکان افغانستان کی ثقافتی سفیر کی حیثیت رکھتی تھیں۔

سرمست اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور انہوں نے بتایا کے طالبان نے اسٹاف کو ادارے میں جانے سے روک رکھا ہے۔

ان کے بقول، ادارے میں آنے والے زہرہ اور دوسرے موسیقی پریکٹس کرنے والے گروپس اپنی جان کے لئے فکرمند ہیں اور تاحال روپوش ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے انسٹیٹیوٹ کے بند کئے جانے کے حوالے سے استفسار پر طالبان ترجمان نے کوئی فوری جواب نہیں دیا۔

پندرہ اگست کو جب نگین موسیقی کے حوالے سے اپنی تمام یادداشتیں جلا رہی تھیں ان کے بہت سے ساتھی اکتوبر میں ہونے والے ایک بڑے بین الاقوامی ٹور کے لئے انسٹیٹیوٹ میں تیاریاں کر رہے تھے۔۔

کابل پر طالبان کی پیش قدمی کی اطلاع ملتے ہی تمام ارکان جلدی میں اپنے بھاری بھرکم موسیقی کے آلات پیچھے ہی چھوڑ گئے۔

احمد سرمست نے بتایا کہ انہیں کئی اسٹوڈنٹس نے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے اور یہ کہ کسی طرح ان کی مدد کی جائے۔ سرمست کے اسٹاف نے انہیں افغانستان واپس آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ طالبان انہیں تلاش کرنے کے لئے کئی بار سرمست کے گھر پر چھاپہ مار چکے ہیں۔

چیلو انسٹرومنٹ بجانے والی زہرہ گروپ کی اکیس سالہ سابقہ رکن نظیرہ ولی اس وقت امریکہ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ آنے کے بعد بھی گروپ کے ارکان کے ساتھ رابطے میں رہیں۔

نظیرہ بتاتی ہیں کہ گروپ کی ارکان اتنی سہمی ہوئی تھیں کی انہوں نے خوف کے عالم میں اپنے موسیقی کے آلات توڑ ڈالے اور سوشل میڈیا سے اپنی پروفائلز فوری ڈیلیٹ کر دیں۔

بقول ان کے، ''میرا دل یہ سوچ کر ہی دہل جاتا ہے کہ اب جبکہ وہاں طالبان کا راج ہے میری ساتھیوں کے ساتھ کسی بھی لمحے کیا کچھ ہو سکتا ہے''.

نظیرہ کہتی ہیں، ''اگر صورتحال ایسی ہی رہی جیسی اس وقت ہے تو افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی''.

رائٹرز نے صورتحال جاننے کے لئے افغانستان میں روپوش کئی آرکسٹرا ارکان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر کسی طرف سے بھی جواب موصول نہیں ہوا۔

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG