طالبان پر خاتون پولیس آفیسر کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام
طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے صوبے غور میں ایک افغان خاتون پولیس افسر کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے، جبکہ وہ ماں بننے والی تھیں۔
صوبہ غور کے دارالحکومت فیروز کوہ میں اس خاتون کو اس کے گھر میں اس کے عزیزوں کے سامنے گولی ماری گئی۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پولیس افسر ماں بننے والی تھیں۔
حسن حکیمی نے جو سول سوسائٹی کے ایک سرگرم کارکن ہیں اور بیرونِ ملک مقیم ہیں، جرمنی کی خبر رساں ایجنسی، ڈی پی اے کو بتایا کہ نگار کو اس کے شوہر اور بیٹے کے سامنے ہلاک کیا گیا۔
حکیمی کا کہنا تھا کہ، "ہم ان خواتین کے لئے فکر مند ہیں جو پولیس کے لئے کام کرتی تھیں، سیف ہاؤس میں اور خواتین کے ڈائریکٹوریٹ میں۔" انہوں نے مزید کہا کہ طالبان انہیں کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں۔
طالبان نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کی چھان بین کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم اس واقعے سے آگاہ ہیں اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ طالبان نے اسے نہیں مارا۔ ہماری چھان بین جاری ہے۔ "
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے پہلی حکومت میں کام کرنے والوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نگار کا قتل کسی ذاتی دشمنی یا کسی اور وجہ سے ہوا ہے۔
اس واقعے کی تفصیلات اب بھی واضح نہیں ہیں۔ تاہم، بی بی سی کے مطابق تین ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان نے ہفتے کے روز نگار کو مارا پیٹا اور شوہر اور بچوں کے سامنے گولی ماردی۔
گزشتہ ماہ کابل پر قبضے کے بعد طالبان لیڈر کہہ چکے ہیں کہ وہ اسلامی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
تاہم، ملک میں خواتین پر جبر کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
1996 سے 2001 تک اپنے دورِ حکومت میں طالبان نے خواتین کو کام سے روک دیا تھا، لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی اور خواتین کے لئے ضروری تھا کہ وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے برقعہ پہنیں اور کسی محرم کو ساتھ لے کر جائیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران افغان خواتین نے کابل اور ہرات میں کئی مقامات پر احتجاج کیا ہے اور خواتین کے لئے برابری، انصاف اور جمہوریت کا مطالبہ کیا ہے۔
چار ستمبر کو طالبان نے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین کے ایک مظاہرے کو زبردستی ختم کروا دیا۔
کیا طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے، مبصرین کی منقسم رائے
گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان جنگ و جدال کا شکار ہے۔ پہلے 1979 میں اسوقت کی ایک سپر پاور سابقہ سوویت یونین نے بہ زور طاقت افغانستان کو زیرکرنا چاہا۔ لیکن ناکام ہوا اور خود سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ جس کے بعد مختلف افغان دھڑے آپس میں برسر پیکار رہے۔
امریکہ پر 9/11 کے دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان سے پنپنے والی دہشت گردی کو روکنے اور القاعدہ کو جو 9/11 حملوں کی ذمہ دار تھی سزا دینے کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے لشکر کشی کی جس کا سلسلہ تقریباً20 سال جاری رہا۔
اس دوران افغانستان میں مختلف منتخب حکومتیں نظام مملکت چلاتی رہیں لیکن ایک جانب افغان طالبان سرگرم عمل رہے اور دوسری جانب دوسرے دہشت گرد گروپ بھی وہاں فعال رہے۔ اس سارے عرصے میں خونریزی کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ پچھلے سال امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ ہوا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ اور امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کردیا۔
انکا موقف تھا کہ ان 20 برسوں کی کارروائیوں کا مقصد یہ تھا کہ القاعدہ کو اس قابل نہ رہنے دیا جائے کہ وہ آئندہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں پر دہشت گرد حملے کر سکے اور وہ مقصد حاصل کرلیا گیا ہے۔
افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت جس کے پاس کوئی تین لاکھ ایسی فوج تھی جس کی بقول ان کے بہترین تربیت کی گئی تھی اور جس کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے، ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے۔ مغربی ممالک کی فوجیں اپنے نئے نظام الاوقات کے مطابق افغانستان سے نکل گئیں اور کوئی دو عشروں کے بعد طالبان ایک بار پھر افغانستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ جنکا دعوی ہے کہ اب وہ پہلے والے طالبان نہیں ہیں اور انکی سوچ بدل گئی ہے۔
طالبان نے جمہوریت،خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق اور حقوق انسانی کی پاسداری کے حوالے سے بہت سے وعدے کئے ہیں لیکن آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔
عالمی امور کے ماہرین کے درمیان یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ آیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرکے انہیں 'انگیج 'کیا جائے اور عالمی برادری کے ملکوں میں انہیں شامل ہونے کا موقع دیا جائے یا انہیں الگ تھلگ کرکے ان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں۔
پروفیسر حسن عسکری پاکستان کے ممتاز تجزیہ کار اور عالمی امور کے ماہر ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن ملکوں کو نقصان ہوا ہے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے انہیں تو یقیناً طالبان کو فوری طور پرانگیج کرنے میں تامل ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر افغانستان میں امن اور سکون نہیں ہو گا، خلفشار ہو گا تو وہ سرزمین ایک بار پھر دہشت گردوں کی آماجگاہ بن سکتی ہے، جو کہ پڑوسی ملکوں کے لئے بھی خطرناک صورت حال ہو گی اور بقیہ دنیا کے لئے بھی۔
انہوں کہا کہ طالبان اب یہ اشارے دے رہے ہیں کہ وہ پہلے سے مختلف ہیں۔ وہ بھی دنیا کو انگیج کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر حسن عسکری نےکہا کہ انکے خیال میں انہیں یہ موقع دیا جاسکتا ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں پر پورے اترتے ہیں اور کیا وہ اسی طرح دنیا کو انگیج کرتے ہیں جس طرح ایک ذمہ دار ریاست کو کرنا چاہئیے۔ اور اس نقطہ نظر سے انہیں انگیج کرنا مناسب رہے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایک آدھ کے علاوہ زیادہ تر پڑوسی ممالک سے تو یہ اشارے مل رہے ہیں کہ وہ طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ طالبان کو جو فوری مالی اور سفارتی مدد درکار ہے وہ فراہم کریں گے، کیونکہ اگر افغانستان میں حالات بگڑتے ہیں تو یہی ملک سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ تاہم، انکا کہنا تھا کہ مغربی ملکوں میں اس بارے میں اسوقت ہچکچاہٹ پائی جائے گی اور تنقید بھی کی جائے گی کیونکہ جو بھی حکومت افغانستان میں بنے گی اس میں ہر چند کہ دوسرے لوگ بھی شامل ہونگے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ تقاضے حکومت پورے نہیں کر سکے گی جو مغرب کی نظر میں جمہوریت کے تقاضے ہیں۔ اور مغرب کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ افغانستان میں عدم استحکام سےکیا مغرب کو فائدہ پہنچے گا یا وہاں کا استحکام بہتر ہو گا۔
ڈاکٹر راونی ٹھاکر ممتاز بھارتی تجزیہ کار ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر طالبان یہ ثابت نہ کرسکے کہ وہ تبدیل ہو گئے ہیں تو مغربی ملکوں کے لئے انہیں انگیج کرنا مشکل ہو گا۔ لیکن بعض ممالک دو طرفہ تعلقات کی بنیادوں پر انہیں انگیج کریں گے، جیسے، بقول ان کے، اسوقت چین کر رہا ہے، اس کے لیڈروں کے ساتھ انکی ملاقاتیں بھی ہوئیں ہیں۔ اور یہ ہی صورت حال پاکستان کے ساتھ بھی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی اس حوالے سے اب اپنی پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا جس میں اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ کیا اب بھی افغانستان کی سرزمین سے اسکے خلاف دہشت گردی ہو سکتی ہے یا طالبان اسکی اجازت نہیں دیں گے۔ بلکہ انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ بھارت کو اب ریجنل سیکیورٹی وغیرہ پر زیادہ توجہ دینی چاہئیے اور انتظار کرنا اور دیکھنا چاہئیے کہ چین افغانستان میں ایسا کونسا کام کرسکتا ہے جو امریکہ اور سابق سوویت یونین نہ کر سکے۔
ڈاکٹر حیدر مہدی شارجہ کی امریکی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسوقت طالبان کو انگیج کرنے کی پالیسی اپنانی چاہئیے اور انکے جو اثاثے منجمد کئے گئے ہیں انہیں ریلیز کر دینا چاہئیے۔تاکہ وہ آپنا کام چلا سکیں۔
ڈاکٹر حیدر مہدی کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کو زیادہ دبانے کی کوشش کی گئی تو پھر ان کے بارے میں کوئی ضمانت دینا مشکل ہوگی کہ وہ کیا کر گزریں گے۔
کیا عالمی برادری طالبان کے وعدوں کا اعتبار کرے گی؟
افغانستان میں طالبان نے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اب اپنی ایک عبوری حکومت بھی قائم کرنے کے بعد نگران کابینہ کے چند ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ عالمی برادری ان کے خود کو تبدیل ہونے کے دعوے پر یقین کرکے کیا انہیں انگیج کرے گی یا ان کو جمہوریت، حقوق انسانی اور خواتین سمیت دوسری اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری پر مجبور کرنے کے لئے فی الوقت ان پر دباؤ جاری رکھے گی۔ انہیں خود کو تسلیم کرانے، اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے اور جنگ سے تباہ حال ملک کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے لئے عالمی برادری کی مدد اور تعاون کی ضرورت ہے۔
ہم نے عالمی امور کے جتنے ماہرین سے اب تک گفتگو کی ہے ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ عالمی برادری کے پاس اس سلسلے میں کچھ زیادہ متبادل راستے موجود نہیں ہیں۔
لارڈ نذیر احمد برطانیہ کے ایک تجربہ کار سیاستداں ہیں اور عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلا شبہ بعض حلقے یہ چاہیں گے کہ طالبان پر دباؤ رکھا جائے۔
بقول ان کے، آج کے حقائق اس بات کے متقاضی ہیں کہ انکے ساتھ مکالمہ جاری رکھا جائے اور انہیں مسلسل انگیج رکھا جائے، کیونکہ ساری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ افغانستان میں نئے دہشت گرد گروپ جنم نہ لینے پائیں اور جو گروپ وہاں پہلے سے موجود ہیں ان کو بھی غیر فعال بنایا جائے اور اسکے لئے طالبان کا تعاون اور اس کام میں انکی مدد نا گزیر ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کام طالبان کے ساتھ انگیجمنٹ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔
لارڈ نذیر نے کہا کہ مغربی ممالک نہیں چاہتے کہ دنیا کو دکھائیں کہ جن طالبان کے بارے میں اتنا کچھ کہہ چکے ہیں اب ان ہی کے ساتھ فوری طور پر بات چیت بھی کر رہے ہیں، لیکن آخر کار ہونا یہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض وقت سیاست میں سخت باتیں کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن پھر بتدریج راہیں بھی نکالنی پڑتی ہیں اور یہ ہی بات افغانستان کے سلسلے میں بھی ہوتی نظر آرہی ہے۔
جہانگیر خٹک عالمی امور کے ایک ممتاز تجزیہ کار ہیں اور نیو یارک کی سٹی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں انکا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ طالبان کا بھی ہے۔ لیکن اس سے بڑا سوال افغان عوام کا ہے۔ ایک ملک جس کی آبادی 38 ملین سے کچھ زیادہ ہے جس میں آدھے سے کچھ کم لوگ ایسے ہیں جو بنیادی انسانی ضروریات کی چیزوں سے محروم ہیں، جہان خشک سالی عروج پر ہے اور جہان چالیس فیصد فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، جہاں کووڈ کے خلاف صرف پانچ فیصد لوگوں کو ویکسین لگ سکی ہے، وہاں پر صرف ایک حکومت کو دیکھنا اور اسکے حوالے سے کسی بھی قسم کی پالیسی سازی کرنا دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔
بقول ان کے، اسی لئے جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے امریکہ سمیت کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ طالبان کے ساتھ قطع تعلق کیا جائے، کیونکہ اس صورت میں خطرہ یہ ہے کہ وہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں زیادہ مضبوطی پکڑ سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق مختلف دہشت گرد گروپوں کے ہزاروں مسلح جنگجو آج بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ ان حالات میں اگر آپ قطع تعلق کریں گے اور طالبان کی حکومت کو الگ تھلگ کر دیں گے تو وہ حکومت جس پر پہلے ہی شک ہے کہ اسکے بہت سےدہشت گروپوں سے تعلقات ہیں وہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور اس سے علاقائی اور عالمی سیکیورٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ افغانستان ایک بڑے انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ اس سلسلے میں دنیا کو پہلے ہی آگاہ کر چکی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسوقت ایک امتحان درپیش ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ اسکے علاوہ اور کوئی متبادل ہے کہ وہ طالبان کو انگیج کئے بغیر افغانستان میں کسی بہتری کی امید رکھ سکیں۔ یہ مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ مجبوری انسانی لحاظ سے ہے اور ضرورت اسٹریٹیجک لحاظ سے؛ کیونکہ انہیں داعش جیسے گروپوں کو ختم کرنے کے لئے طالبان کی مدد درکار ہو گی۔
ایران افغانستان کا پڑوسی ملک ہے جس کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے۔ ایران میں اس حوالے سے کیا سوچ پائی جاتی ہے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وہاں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر راشد نقوی نے کہا کہ ''ظاہر ہے کہ اسوقت افغانستان کے پڑوسی ممالک کے مفادات یا تحفظات موجود ہیں۔ وہ ایک نئی صورت حال سے دو چار ہیں''۔
بقول ان کے، اس اعتبار سے ایران کی خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت ہو جس سے پورے خطے میں سیکیورٹی اور سلامتی کی صورت حال بہتر رہے۔ اسی لئے ایران نے طالبان کو انگیج رکھا ہے اور اسوقت بھی سفارتی سرگرمیاں اس حوالے سے جاری ہیں۔ ہمسایہ ممالک کا ایک آن لائن اجلاس بھی ہوا ہے اور ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کا بھی اجلاس ایک آدھ دن میں ہونے والا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ ایران اس بارے میں کافی فعال ہے اور انہوں نے کہا کہ آئندہ کے حالات کا انحصار خود طالبان کے رویے پر ہو گا۔
آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر طالبان نے گزشتہ بیس برسوں کے تجربے سے واقعی کوئی سبق سیکھا ہے اور وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہیں تو بلا شبہ حالات بہتری کی جانب مائل ہونگے؛ ورنہ بصورت دیگر کیا ہو گا، یہ فیصلہ وقت کرے گا۔
طالبان نے نگران کابینہ کا اعلان کر دیا، حسن اخوند وزیر اعظم مقرر
طالبان نے منگل کے روز اپنی نگران کابینہ کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے جس میں طالبان نے اپنے پرانے کارکنوں کو اہمیت دیتے ہوئے اعلی عہدوں ان شخصیات کو مقرر کیا ہےجو امریکی قیادت کی اتحادی افواج اور ان کے ساتھ شامل افغان حکومت کے خلاف 20 سالہ جنگ میں نمایاں رہی ہیں۔
نئی کابینہ کے ناموں کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو کابل میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
طالبان کے ترجمان ذبیج اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ حسن اخوند کو نئی حکومت کا قائم مقام وزیر اعظم مقرر کیا گیا ہے جب کہ ملا عبدالغنی برادر قائم مقام نائب وزیر اعظم ہوں گے۔
سراج الدین حقانی قائم مقام وزیر داخلہ مقرر کیے گئے ہیں۔ شیر محمد عباس ستنکزئی کو نئی افغان حکومت میں قائم مقام نائب وزیر خارجہ کا عہدہ دیا گییا ہے جب کہ امیر خان متقی قائم مقام وزیر خارجہ ہوں گے۔ اور مولوی عبدالحاکم کو وزیرِ انصاف مقرر کیا گیا ہے۔

وزارت دفاع کا قلم دان ملا یعقوب کو تفویض کیا گیا ہے۔ وہ قائم مقام وزیردفاع کے طور پر کام کریں گے۔ وہ طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے صاحب زادے ہیں۔
ملا حسن اخوند طالبان کے پہلے دور حکومت میں کابل میں قائم طالبان حکومت کے سربراہ تھے۔
ملا عبدالغنی برادر جنہیں اخوند کا نائب مقرر کیا گیا ہے، امریکہ کے ساتھ بات چیت میں طالبان وفد کی قیادت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ہی طالبان کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
وزیراعظم کے دو نائب ہوں گے جن میں سے ایک پر ملا برادر کا تقرر ہوا ہے۔
طالبان رہنما خلیل الرحمن حقانی کو قائم مقام وزیر برائے پناہ گزین، ملا ہدایت اللہ بدری وزیرِ خزانہ جب کہ شیخ اللہ منیر وزیرِ تعلیم ہوں گے۔
افغانستان کے ٹی وی پر خاتون اینکر دوبارہ
ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ یہ فی الوقتی سیٹ اپ ہے جو اُمور مملکت چلانے کے لیے تشکیل دیا گیا، تاہم اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئی کابینہ کی منظوری طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے دی ہے۔ البتہ طالبان کے سربراہ خود کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔
اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ نئی حکومت میں غیر طالبان عہدے دار بھی شریک ہوں گے جو کہ بین الاقوامی کمیونٹی کا ایک سب سے بڑا مطالبہ ہے۔
نئی کابینہ میں کسی خاتون وزیر کو شامل نہیں کیا گیا۔ خیال رہے کہ طالبان پہلے ہی یہ عندیہ دے چکے تھے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو بعض سرکاری محکموں میں کام کی اجازت دیں گے۔ البتہ کابینہ میں اُنہیں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اپنی پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جنگ اب ختم ہو چکی ہے اور اسلامی امارات کے قیام کے لیے اب میدان صاف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان خطے کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ روابط رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس ضمن میں مختلف ممالک کے نمائندے افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے نگران حکومت کے عہدے داروں کے ناموں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جب کابل میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے ہوا میں گولیاں چلائیں اور کئی صحافیوں کو حراست میں لیا۔
طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ: کون سے رہنما اہم، قیادت کس کے ہاتھوں میں ہے؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں دوسری مرتبہ ہے کہ طالبان نے دارالحکومت کابل میں مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سختی سے کام لیا ہے۔
مظاہرین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے اکھٹے ہو کر اسلام آباد پر یہ الزام لگایا کہ وہ پنج شیر میں طالبان مخالف محاذ کے خلاف جنگ میں طالبان کی مدد کر رہا ہے۔
طالبان نے پیر کے روز کہا تھا کہ انہوں نے صوبہ پنج شیر پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہ آخری صوبہ تھا جس پر طالبان کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لڑائی سے قبل کئی دنوں تک متحدہ محاذ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے تھے، جس کی ناکامی کے بعد طالبان نے پنج شیر پر حملہ کیا۔
افغانستان کی سابقہ حکومت پاکستان پر عموماً یہ الزام لگاتی رہتی تھی کہ وہ طالبان کی مدد کر رہی ہے، جس سے اسلام آباد نے ہمیشہ انکار کیا۔
سابق نائب صدر امراللہ صالح، جو طالبان مخالف فورسز کے رہنماؤں میں شامل ہیں، پاکستان پر ایک عرصے سے سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔

منگل کے روز کئی درجن خواتین نے کابل میں پاکستان کے سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا جن میں سے کچھ نے ایسے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ طالبان نے پاکستان کی مدد سے ان کے بیٹے مار ڈالے ہیں۔
ہفتے کے روز طالبان فورس کے اسپیشل گروپ نے کابل میں اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والی عورتوں کا مظاہرہ ختم کرانے کے لیے ہوا میں فائر کیے۔
منگل کے روز بھی طالبان فورس کے ارکان اس وقت حرکت میں آئے جب مظاہرین صدارتی محل کے قریب پہنچے۔ انہوں ںے ہوا میں گولیاں چلائیں اور مظاہرے کی کوریج کرنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا۔
)اس خبر کا کچھ مواد رائٹرز اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)