طالباں سفری دستاویزات رکھنے والوں کے ملک سے باہر جانے کی اجازت کے وعدے کی پاسداری کریں، بلنکن
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے طالبان کو یاد دلایا ہے کہ دنیا اس بات کو بغور دیکھ رہی ہے کہ کیا طالبان اپنے اس وعدے کو پورا کر رہے ہیں کہ کسی بھی افغان باشندے کو قانونی سفری دستاویز رکھنے پر اس کی مرضی کے مطابق ملک سے باہر جانے دیا جائے گا۔
بلنکن نے قطر کے دورے کے دوران بتایا کہ باور کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں اس وقت، جہاں اب طالبان کا کنٹرول ہے، ایک سو کے قریب امریکی موجود ہیں جن میں دہری شہریت رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ کا محکمہ خارجہ تمام امریکی شہریوں سے براہ راست رابطے میں ہے۔ اور ہر شہری کے لیے الگ کیس مینیجر مقرر کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ امریکی شہری جو افغانستان چھوڑنا چاہیں، ملک سے باہر جا سکیں۔
وزیر خارجہ نے کہا گزشتہ 24 گھنٹوں میں طالبان اپنے وعدے پر قائم رہے ہیں اور انہوں نے چار افراد پر مشتمل ایک امریکی خاندان کو افغانستان چھوڑنے دیا اور اب خاندان کے افراد زمینی راستے سے ملک سے نکل چکے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ایک اہل کار نے پیر کو کہا کہ طالبان اس خاندان کے ملک سے نکلنے سے آگاہ تھے لیکن سرکاری اہل کارنے یہ نہیں بتایا کہ امریکی خاندان نے افغانستان سے نکل کر کس ملک کا رخ کیا۔

خیال رہے کہ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اس وقت امریکی سفارت کاری کے سلسلے میں مشرق وسطی کے ملکوں کے دوروں پر ہیں۔
قطر میں قیام کے دوران وزیر خارجہ بلنکن نے قطر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے ملک نے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد امریکی،خطرات میں گھرے افغان اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے انخلا میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
قطر افغانستان سے نکلنے والے 58,000 لوگوں کے لیے پہلا اسٹاپ تھا جہاں سے یہ لوگ ایک بہتر اور پر امن مستقبل کے لیے سفر پر روانہ ہو گئے۔
بلنکن نے قطر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کو مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
بلنکن نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ہمراہ نامہ نگاروں سے بات کرنے سے پہلے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی اور وزیر دفاع خالد بن محمد ال عطیہ بھی اس موقع پر موجود تھے ۔میٹنگ میں افغانستان کے علاوہ تجارت، انسداد دہشت گردی اور انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد پر بات چیت کی گئی۔
قطر کے وزیر خارجہ الثانی نے بتایا کہ ان کے ملک کی ماہرین پر مشتمل ٹیمیں کابل میں تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہیں تاکہ وہاں پر ایئر پورٹ کو فعال بنا کر اسے انسان دوستی کے تحت دی جانے والی امداد اور تجارتی پروازوں کے لیے کھولا جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ابھی ضروری ساز و سامان اور سیکیورٹی کے معیارات جیسی اہم ترین سہولتوں کی دستیابی کا کام باقی ہے جن کی دستیابی کے بعد مسافر بین الااقوامی پروازوں کے لیے کابل ایئر پورٹ سے سفر کر سکیں گے۔
ابل ایئر پورٹ پر وی او اے کی نامہ نگار نے کیا دیکھا؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر سیکیورٹی اقدامات اٹھائے جائیں اور طالبان کے ساتھ اس معاملے پر اتفاق ہو جائے تو ایئرپورٹ کو فعال بنانے کے حوالے سے آسانی ہو گی۔
یاد رہے کہ کابل ایئر پورٹ پر طالبان کے دارالحکومت پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد کئی روز تک افراتفری کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ جب کہ امریکہ نے ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کا نظام سنبھال کر ملک سے انخلا کے لیے پروازوں کو جاری رکھا۔ اس دوران انتہا پسند تنظیم داعش کے خراساں گروپ کے حملہ آوروں کے ایک حملے میں 13 امریکی فوجی اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔
قطر میں دورے کے دوران وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی کوششوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی دو عشروں کی افغانستان میں موجودگی کے اختتام پر وہاں جو کچھ ہوا اس کا آنے والے دنوں اور مہینوں میں جائزہ لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا"مجھے اپنی فوج کے جوانوں اور خواتین کی اس عظیم کاوش پر فخر ہے جو انہوں نے ایک لاکھ 25 ہزار افراد کو کابل ایئرپورٹ سے مختصر سے وقت میں وہاں سے نکالنے کے سلسلے میں سر انجام دی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی آپریشن مکمل طورپرمثالی نہیں ہوتا اور سیکھنے کا موقع ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
اب جب کہ افغانستان میں امریکی فوجیں موجود نہیں ہیں، اس بات پر کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس خطے سے ہونے والے خطرات کی شناخت اور ان سے مقابلہ کرنے میں دشواریاں زیادہ ہوں گی۔
کیا عالمی برادری طالبان کے تبدیلی کے وعدوں پر یقین کرے گی؟
لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس اعلیٰ صلاحیتیں ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ملک کے لیے خطرات سر نہ اٹھائیں۔
"دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں امریکہ نہ پہنچ سکے اور ہم نے اس بات کو بارہا ثابت کر دکھایا ہے۔"
اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں وزیر خارجہ بلنکن جرمنی جائیں گے جہاں وہ امریکی فوجیوں اور افغان پناہ گزینوں سے امریکی ایئر بیس رامسٹائین میں ملاقات کریں گے۔
وہ 20 ممالک کے وزرا سے افغانستان کی صورت حال پر ایک ورچوئل یعنی آن لائن کانفرس سے بھی خطاب کریں گے۔
آسٹن اپنے دورے کے اگلے مرحلے میں مشرق وسطی میں امریکہ کے حلیف ممالک بحریں، کویت اور سعودی عرب جائیں گے۔
افغان خواتین کی روبوٹک ٹیم کے لیے قطر کے وظائف
خواب دیکھنے والے افغان' نامی افغانستان کی نوجوان خواتین پر مشتمل روبوٹکس ٹیم کی ارکان کو قطر کی تعلیم اور سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
قطر حکومت نے حال ہی میں کابل ایئرپورٹ سے غیر ملکیوں اور ایسے افغان شہریوں کے انخلا کے لئےجن کی جان کو خطرات لاحق تھے، اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہی افراد میں خواتین پر مشتمل اس روبوٹکس ٹیم کی طالبات بھی شامل ہیں جنہیں دارلحکومت دوحہ کی اسکولز اور یونیورسٹیز کے ایجوکیشن سٹی کیمپس میں ٹھہرایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قطر فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قطر تعلیمی اور سائنس فاؤنڈیشن' اور 'قطر ترقیاتی فنڈ' کی شراکت داری سے ان طالبات کو وظیفے دیئے جائیں گے، تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں.
بیس کے قریب نوجوان خواتین پر مشتمل اس ٹیم کی ارکان اس وقت دنیا میں مختلف جگہوں پر ہیں جن میں سے کئی قطر اور میکسکو میں ہیں۔
سن 2017 میں افغان طالبات کی یہ روبوٹکس ٹیم اسوقت شہ سرخیوں میں آئی تھی جب انہیں امریکہ میں ہونے والے اک روبوٹکس مقابلے میں شرکت کے لئے ویزوں کے حصول میں دشواری پیش آئی تھی اور بعد میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد یہ طالبات امریکہ پہنچی تھیں۔
گزشتہ سال کرونا وبا کے دوران ہسپتالوں کی استطاعت بڑھانے کے لئے ان طالبات نے کاروں کے پرزوں پر مشتمل کم لاگت کے طبی وینٹیلیٹرز بنانے پر کام کیا تھا۔
قطر فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو شیخہ ہندبنت حماد الثانی کا کہنا ہے کہ ''تخلیقی ذہنوں کی حامل اور اعلیٰ صلاحیت رکھنے والی یہ طالبات بےچینی اور غیر یقینی کی صورتحال میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ہم قطر فاؤنڈیشن کے ذریعے ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ ایجوکیشن سٹی میں تعلیمی وظیفے ملنے کے بعد اب یہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی''.
شیخہ ہند بنت خلیفہ الثانی نے مزید بتایا کہ اب یہ دیکھاجارہا تھا کہ ان کے لئے کونسے اسکول اور یونیورسٹی پروگرامز بہترین رہیں گے۔
منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے قطر کے دورے کے دوران خواتین روبوٹکس ٹیم کی کئی میمبران سے ملاقات بھی کی۔
بلنکن نے ان طالبات سے گفتگو میں کہا کہ ''آپ دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جو کہانی آپ خواتین کی سائنس میں اہمیت کے حوالے سے جو آپ نے کہا ہے وہ دوسروں کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی مثال صرف افغانستان کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو اک اہم پیغام دیتی ہے''.
خبر رساں ادارے، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے افغان خواتین روبوٹکس ٹیم کو مدد فراہم کرنے والے ڈیجیٹل سٹیزن فنڈ نامی ادارے کی سربراہ رویا محبوب نے ٹیم کی ارکان کے حوالے سے بتایا کہ ''یہ نوجوان طالبات بیرون ملک اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع ملنے پر بہت خوش اور شکر گزار ہیں''.
رویا محبوب نے وزیر خارجہ بلنکن سے افغان خواتین کے مستقبل کے بارے میں بھی استفسار کیا۔
اس ٹیم کی کئی میمبران، جن کے نام ان کی شناخت محفوظ رکھنے کے لئے ظاہر نہیں کئے گئے، اب میکسکو میں مقیم ہیں۔
کیا طالبان کی کابینہ میں ملک کی تمام قومیتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی ہے؟
طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت کی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے جسے عبوری کابینہ کا نام دیا گیا ہے۔ کیا اس میں افغانستان میں آباد تمام قومیتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی ہے؟ کیا یہ ایک Inclusive حکومت ہے؟ کیا یہ کابینہ ان وعدوں کے مطابق ہے جو طالبان نے عالمی برادری سے کئے تھے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے پیش نظر ہیں۔
رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے اس اعلان شدہ کابینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ایک دو تاجک اور ازبک ہیں لیکن یہ Inclusive کابینہ بہرحال نہیں ہے۔ اور جو وعدے انہوں نے کئے تھے، کابینہ ان وعدوں کے مطابق نہیں ہے۔
لیکن طالبان کہتے ہیں کہ کہ یہ عبوری کابینہ ہے۔ اس میں اضافہ ہو گا۔ اور نئ کابینہ بنے گی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں وقت دینا ہو گا۔ ان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ کابینہ کا اعلان کیوں نہیں کرتے, اس لئے انہوں جلدی میں کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اور عجلت میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ کن کن اقلیتوں کو کہاں اور کس لیول کی نمائیندگی دی جائے۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خود طالبان کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور ممکن ہے کہ آپس میں کچھ اختلافات بھی ہوں. اس لئے انہیں کچھ وقت دیا جانا چاہئیے.
امریکہ کا طالبان کی عبوری کابینہ پر اظہارِ تشویش، چین افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں جو کچھ ہوا, طالبان اس کے لئے ذہنی طور پر بقول ان کے تیار نہ تھے کہ وہ اتنی جلدی پورے افغانستان کو شامل کر سکتے، اس لئے ان کو وقت دینا ہو گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس کابینہ کو دیکھنے کے بعد کیا دنیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرے گی? تو ان کا جواب تھا کہ فی الحال نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے آگے چل کر ایسی کابینہ بنائی جو پوری طرح نمائندہ ہو اور وہ ڈیلیور کرنا شروع کر دیں اور معیشت کی درستگی کا عمل شروع ہو جائے، تو پھر ان پر بھروسہ نہ کرنے کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے اور اس لحاظ سے یہ ان کے لئے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ ورنہ بصورت دیگر آہستہ آہستہ عوام کا رد عمل آنا شروع ہو جائے گا اور چونکہ معیشت کے مسائل بڑے گمبھیر ہیں، اس لئے ان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن انہیں حالات کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے وقت درکار ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان میں جو احتجاج ہو رہے ہیں اور طالبان جس طرح ان سے نمبٹ رہے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی موجودہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا تو ان کا جواب تھا کہ اسے اس سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئیے کہ اس وقت نہ تو افغانستان میں کوئی پولیس ہے، نہ سول ایڈمنسٹریشن کے لوگ موجود ہیں اور سول انتظامیہ کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ اور جو لوگ اس وقت انتظام چلا رہے ہیں ان کی نہ اس سلسلے میں کوئی تربیت ہے نہ انہیں قانون کا پتہ ہے۔ اور چونکہ اس وقت لاء انفورسمنٹ کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں ہے، اس لئے یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو افسوس ناک ہے۔ لیکن باقاعدہ پولیس فورس کی عدم موجودگی میں غیر تربیت یافتہ رضا کار اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں اس لئے طالبان کو وقت دینا ہو گا۔
کیا طالبان بیرونی امداد کے بغیر افغان معیشت کو چلا پائیں گے؟
ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی میں مقیم افغان صحافی اور رائٹر ہیں۔ نئ افغان کابینہ کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کابینہ کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ طالبان نے اپنے مختلف دھڑوں کو نمائندگی دیتے ہوئے ان کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کے بقول یہ کسی بھی طور نہ تو پروفیشنل کابینہ ہے نہ Inclusive حکومت نظر آتی ہے۔ اس میں آپ دیکھیں تو حقانی خاندان کے بیک وقت چار وزراء نظر آئیں گے۔ علاوہ ازیں متعدد وزراء وہ ہیں جو اقوام متحدہ کی اس فہرست میں شامل ہیں جن پر تعزیرات عائد ہیں۔
ڈاکٹر یاسا کا کہنا تھا کہ جس طرح خواتین کے احتجاج سے نمٹا گیا یا پنج شیر میں حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ طالبان اپنا اصل رنگ دکھانے کے لئے بہت جلدی میں ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب دنیا کے ملکوں کا کیا رد عمل ہو گا، ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ یوروپی ملکوں سمیت کئی ملک پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر شریعت کا نفاذ ہوا تو وہ احتیاط سے کام لیں گے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے جرمنی نے کہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کا کام تو جاری رہے گا۔ لیکن اس کے علاوہ اور کسی مدد اور تعاون کا انحصار طالبان کے رویے اور کردار پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو اور کچھ ممالک طالبان کے لئے تھوڑا سا نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ بھی اس وقت محتاط نظر آرہے ہیں۔ جیسے ایران کی وزارت خارجہ نے بقول ان کے پنج شیر پر حملے اور وہاں ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال ہر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ جو طالبان کے آنے سے پہلے خوش فہمی کی فضا تھی اور طالبان اپنی جس بدلی ہوئ سوچ کا خاکہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے، اس میں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے رویے میں فرق نظر آرہا ہے۔
جرمنی میں افغانستان پر 20 ملکوں کا اعلی سفارتی اجلاس، بلنکن کی شرکت
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور جرمن وزیرخارجہ ہائکو ماس بدھ کے روز ساتھیوں کے ایک گروپ اور اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، جس کا موضوع افغانستان کی صورت حال ہے۔
رمسٹائین ایئر بیس پر منعقد اس اجلاس میں 20 ممالک شریک ہیں، جن امور پر بات ہو رہی ہے، ان میں طالبان کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے علاوہ انسانی ہمدری کی نوعیت کی بنیادی امداد جاری رکھنے کی کوششوں پر غور بھی شامل ہے۔
وزارتی سطح کے اجلاس سے قبل، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس بات کو بھی زیر غور لایا جائے گا کہ آیا طالبان کیے گئے اپنے وعدوں کو وفا کرنے کی بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورے اترنے کی کوشش کریں گے۔

جرمنی آمد سے قبل، قطر کے دورے کے دوران بلنکن نے اس بات کو نمایاں کیا کہ امریکہ اور دیگر ملکوں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں اور جس کے پاس سفری دستاویزات موجود ہوں اور وہ افغانستان سے باہر جانے کا خواہش مند ہو انھیں باہر جانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
یہ معاملہ تب سے منظر عام پر رہا ہے جب اگست کے اواخر میں امریکہ نے افغانستان سے انخلا مکمل کیا جس کے نتیجے میں افغانستان میں دو عشروں سے جاری فوجی موجودگی ختم ہوئی جب کہ ہزاروں افراد کو خصوصی پروازوں کے ذریعے ملک نے باہر لے جایا گیا۔
تاہم، بہت سے افراد جو افغانستان سے باہر نکلنا چاہتے تھے، وہ امریکی انخلا کی تکمیل سے قبل ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ بدھ کو ہونے والے اس اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے معاملات کے علاوہ افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق کے امور کی سربلندی کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔
