رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

02:49 9.9.2021

خون ریزی بچانے کے لیے ملک چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کیا، اشرف غنی

سابق افغان صدر اشرف غنی، فائل فوٹو
سابق افغان صدر اشرف غنی، فائل فوٹو

افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ پچھلے مہینے ملک چھوڑ کر اس لیے متحدہ عرب امارت چلے گئے تھے تاکہ صدر مقام کابل کی سڑکوں اور گلیوں کو خون ریزی سے بچایا جا سکے، کیونکہ طالبان باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

انہوں نے اس الزام سے بھی انکار کیا کہ وہ سرکاری فنڈز لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "میں نے صدارتی محل کی سیکیورٹی کی جانب سے زور دینے پر ملک چھوڑا، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں بدستور یہاں رہتا ہوں تو گلی گلی میں لڑائی کی وہ ہولناک صورت حال پیدا ہو جائے گی، جس سے یہ شہر 1990 کے عشرے کی خانہ جنگی سے گزر چکا ہے"۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "کابل کو چھوڑنا میری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن، میرا خیال ہے کہ یہ بندوقوں کو خاموش رکھنے اور کابل کے 60 لاکھ شہریوں کو بچانے کا واحد طریقہ تھا۔"

72 سالہ غنی نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کی تشکیل کے لیے 20 سال تک کام کیا ہے، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس کے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں ناکام ہو گئے، اور اس کا وہی نتیجہ برآمد ہوا جو عشروں سے دوسری افغان حکومتوں کا نکلتا رہا ہے۔

اشرف غنی کی روانگی کا علم ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں تھا: رپورٹ

متحدہ عرب امارات نے اشرف غنی کا انسانی بنیادوں پر اپنے ہاں خیرمقدم کیا ہے۔

غنی نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں 15 اگست کو اپنی غیر متوقع اور اچانک روانگی کے متعلق مزید وضاحت پیش کریں گے۔ لیکن، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت وہ ان بے بنیاد الزامات کی درستگی چاہتے ہیں کہ میں کابل چھوڑتے وقت افغان عوام کے لاکھوں ڈالر بھی اپنے ساتھ لے گیا"۔

روس کے خبر رساں ادارے آر آئی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اشرف غنی کابل سے چار کاروں اور نقدی سے بھرے ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے وہ رقم چھوڑ گئے جو وہ ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے۔

کئی دوسری نیوز ایجنسیوں نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر سرکاری خزانے سے 169 ملین ڈالر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ تاجکستان میں افغانستان کے سفیر نے بھی ان پر یہی الزام لگایا تھا۔

اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ الزامات کلی اور قطعی طور پر بے بنیاد ہیں۔

افغانستان میں 35 لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں: اقوامِ متحدہ

انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ اپنے ذاتی مالی معاملات میں ہمیشہ بااصول رہے ہیں اور یہ کہ وہ عوامی سطح پر اپنے تمام اثاثے ظاہر کر چکے ہیں۔ غنی نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے آزاد آڈٹ کے ذریعے اپنی مالیات کی چھان بین کا خیرمقدم کریں گے۔

افغانستان کے 'طلوع' نیوز چینل نے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی رات امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے انٹرویو کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نشر کیا جس میں ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے صدر غنی کے ملک سے فرار میں مدد کی تھی؟

بلنکن نے اپنے جواب میں کہا کہ فرار ہونے سے ایک رات قبل ہونے والی بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک لڑنے کے لیے تیار ہیں جب تک جان میں جان ہے۔

فیس بک فورم

04:08 10.9.2021

امریکی انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ سے پہلی مسافر بردار پرواز

قطر ایئرویز کی پرواز تقریباً دو سو مسافروں کے ساتھ کابل سے دوحہ کے لیے روانہ۔ 9 ستمبر 2021
قطر ایئرویز کی پرواز تقریباً دو سو مسافروں کے ساتھ کابل سے دوحہ کے لیے روانہ۔ 9 ستمبر 2021

جمعرات کے روز کابل کے انٹرنیشننل ایئرپورٹ سے تقریباً 200 مسافروں کو لے کر ایک کمرشل فلائٹ نے اڑان بھری،جس میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے امریکی اتحادی فورسز کے انخلا کے بعد یہ حامد کرزئی انٹرنینشنل ایئرپورٹ سے اتنی بڑی تعداد میں مسافروں کی پہلی پرواز تھی۔

امریکہ اور افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں کے درمیان غیرمتوازن تعلقات کے دوران کابل سے قطر ایئرویز کی دوحہ کے لیے فلائٹ کو ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ایک اور ہوائی اڈے پر چارٹر طیاروں سے روانگی کے خواہش مند درجنوں مسافر پھنسے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے یہ خدشات پیدا ہو گئے تھے آیا طالبان ان غیر ملکیوں اور افغان باشندوں کو مناسب سفری دستاویزات کے ساتھ ملک چھوڑنے کی اجازت دیں گے۔

ایک سینئر امریکی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ طالبان کے دو سینئر عہدے داروں نے مسافروں اور طیارے کی روانگی میں مدد دی۔

امریکی انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ سے قطر ایئرلائنز کی پہلی پرواز میں مسافر سوار ہو رہے ہیں۔ 9 ستمبر 2021

عہدے دار نے بتایا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کابل سے پرواز کرنے والے اس کمرشل طیارے میں امریکیوں، گرین کارڈ رکھنے والے افغان باشندوں کے ساتھ جرمنی،کینیڈا اور ہنگری سے تعلق رکھنے والے مسافر بھی سوار ہیں۔

طیارے پر سوار ہونے سے قبل طالبان حکام نے رن وے کا معائنہ کیا، مسافروں کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی، تربیت یافتہ کتوں نے مسافروں کے سامان کو سونگھا،جس کے بعد انہیں طیارے میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی۔

ایئرپورٹ پرکام کرنے والے کئی کارکن جو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنی ملازمتوں سے فرار ہو گئے تھے، کام پر واپس آ گئے ہیں۔

12 سالہ پوپلزئی نے، جو امریکی انخلا کے بعد کابل سے پہلے کمرشل فلائٹ پر اپنی والدہ اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ سوار تھی، بتایا کہ ان کا خاندان امریکی ریاست میری لینڈ میں رہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ میں افغان ہوں لیکن ہم امریکہ میں رہتے ہیں اور یہاں سے روانہ ہوتے ہوئے ہم بہت خوش ہیں۔

چارٹرڈ فلائٹس کو روانگی کی اجازت دی جائے، امریکہ کا طالبان سے مطالبہ

طیارے کی روانگی سے قبل قطری عہدے داروں نے کابل ایئرپورٹ کے رن وے اور دوسرے حصوں کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ ضروری مرمت کے بعد اب یہ ایئرپورٹ بین الاقوامی کمرشل پروازوں کے استعمال کے لیے تیار ہے۔

قطر کےخصوصی سفات کار مطلق بن ماجد الثانی نے اس موقع پر کہا کہ میں واضح طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کا دن افغانستان کی تاریخ میں ایک تاریخ ساز دن ہے، کیونکہ کابل کا ایئرپورٹ اب آپریشنل ہو چکا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس فلائٹ کو آپ جو چاہے نام دے دیں، چاہے اسے چارٹر فلائٹ کہیں یا کمرشل، لیکن اس پر سوار ہونے والے ہر مسافر کے پاس ٹکٹ اور بورڈنگ پاس موجود ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور فلائٹ جمعے کو روانہ ہو گی اور امید ہے کہ افغانستان میں زندگی اپنے معمول پر آ رہی ہے۔

کیا عالمی دباؤ سے افغان طالبان پر کوئی اثر پڑے گا؟

ایک اور غیر ملکی سفارت کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ میڈیا کو بتایا کہ اگلے چند روز میں امریکیوں سمیت تقریباً 200 غیرملکی افغانستان سے پرواز کریں گے۔

اگرچہ طالبان نے دنیا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ جائز سفری دستاویزات رکھنے والے ہر مسافر کو ملک سے جانے کی اجازت دیں گے، لیکن ملک کے شمال میں مزار شریف ایئرپورٹ پر بہت سے لوگ پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جائز سفری دستاویزات نہیں ہیں۔

دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چارٹر طیاروں کو پرواز کی اجازت دیں۔

04:13 10.9.2021

افغانستان سے تجارت ڈالر میں نہیں ہو گی، شوکت عزیز

طورخم کے راستے افغانستان جانے والا تجارتی ٹرکوں کا قافلہ
طورخم کے راستے افغانستان جانے والا تجارتی ٹرکوں کا قافلہ

پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مختلف معمولات چلانے کیلئے پاکستان سے بھی لوگوں کو افغانستان بھیجا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پاکستانی روپے میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ افغانستان کے ساتھ تجارت ڈالر میں نہیں روپے میں ہو گی۔

اسلام آباد میں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ افغانستان کو ڈالر کی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا، اس وقت افغانستان کے زرمبادلہ کے دس ارب ڈالر روک لیے گئے ہیں۔ یہ ڈالرز آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے افغانستان روکے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں ڈالرز کی کمی ہے۔ ہم افغانستان کی صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہے ہیں۔

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس وقت صورتحال کے باعث مختلف معمولات چلانے کے لیے پاکستان سےلوگوں کو بھیجا جاسکتا ہے، لیکن اس بارے میں حکومتی سطح پر بات چیت اور ضرورت کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔

شوکت ترین نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ افغانستان میں موجودہ صورتحال کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا افغانستان جانے سے مقامی قلت کا خدشہ ہے جس کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ کسی بھی قسم کی قلت کو روکنے کے لیے اضافی ذخائر قائم کیے جا رہے ہیں۔

شوکت ترین نے اجلاس میں اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف اور یورو بانڈ سمیت سوا چھ ارب ڈالر کے فنڈز حاصل ہوئے ہیں، اس سے زر مبادلہ ذخائر بلند ترین سطح تک پہنچ گئے، لیکن ذخائر میں اضافے کا تعلق تجارت سے نہیں ہے۔

اس بارے میں تجزیہ کار خرم شہزاد کہتے ہیں کہ افغانستان میں اس وقت ڈالر کی کمی ہے اور آئندہ کچھ عرصے تک صورتحال کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہذا، ایسےمیں افغانستان کےسات روپےمیں تجارت کرنا بہتر ہوگا۔

خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ماضی میں چین کےساتھ بھی چینی یوان اور پاکستای روپے میں تجارت کرنے کی بات کی گئی تھی۔ افغانستان کی معیشت گذشتہ 20 سال سے ڈالر پر انحصار کررہی تھی، لیکن اب موجودہ صورتحال میں ان کے پاس ڈالرز کی کمی ہے۔ ایسے میں روپے میں تجارت سے بہتری آئے گی۔ افغان کرنسی اور پاکستانی روپے جس تیسری رقم کے برابر تصور ہونگی وہ ڈالر ہی ہوگا۔ لیکن مشکل معاشی حالات میں دونوں ملکوں کے لیے یہ ایک بہتر فیصلہ ہے۔ افغانستان میں اس وقت وہ کھانے پینے کی اشیا کے لیےبھی پاکستان پر انحصار کرتے ہیں ایسے میں ڈالر نہ ہونے سے وہاں بحران پیدا ہوسکتا ہے جس کےلیے پاکستان کا اچھا اقدام ہے۔

افغانستان کی معیشت کو دیکھنےکے لیےپاکستان سے ماہرین بھجوانے کے معاملہ پر خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ عارضی بنیادوں پر پاکستان سے ہیومن کیپٹل بھجوانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس میں اگر ایک ملک مشکلات کا شکار ہو اور وہاں اس شعبے سے متعلق کام کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں تو پاکستان سے ضرور ماہرین کو بھجوانا چاہیے۔

معاشی امور پر کام کرنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ڈالر 168 روپےتک پہنچ چکا ہے، جبکہ افغان کرنسی ہمارے روپے کے مقابلہ میں بہتر ہے۔ اس وقت افغان روپیہ 90 روپے کے قریب ہے۔ لہذا، ایسی صورتحال میں افغانستان کے ساتھ روپے میں تجارت دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔

پاکستان کا چین کے ساتھ بھی روپے اور یوان کا معاہدہ ہے

پاکستان کا سال 2011 میں ایک دوسرے کی کرنسی میں تجارت کرنے کا معاہدہ موجود ہے۔ لیکن سال 2018 میں اس بارے میں عملی طور پر کام کا آغاز کیا گیا اور اس بارے میں میکنزم تشکیل دیا گیا، جس کے مطابق، چین کے ساتھ ہونے والے آئندہ معاہدے یوان میں کیے جائیں گے۔ اس فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ تاہم، گوادر اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں چینی کرنسی کے استعمال میں اضافہ دیکھا گیا۔

اس معاہدہ کے تحت پاکستان، چین سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی یوآن میں اور چین پاکستان سے خریدی گئی اشیا کی ادائیگی روپوں میں کر سکتا ہے۔ ادائیگی کا طریقہ کار وضع کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک اور پیپلز بینک آف چائنا کے درمیان کرنسی سوئیپ کا معاہدہ ہوا تھا۔

04:17 10.9.2021

افغان صحافیوں کو حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، مدیر

طالبان محافظ مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔
طالبان محافظ مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں۔

افغانستان سے شائع والے روزنامہ ’اطلاعات روز‘ کے مدیر ذکی دریابی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اخبار سے منسلک دو صحافیوں کو طالبان کی حراست میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

ذکی دریابی نے ٹوئٹر پر دونوں مرد صحافیوں کی تصاویر شئیر کیں جس میں ان کی کمر، ٹانگوں اور چہرے پر تشدد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق،دونوں پر تشدد کی تصاویر کی ادارے نے تصدیق کی ہے۔

رائیٹرز کے مطابق، جب ان تصاویر کے بارے میں طالبان کے ایک سینئر وزیر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ردعمل میں کہا کہ صحافیوں پر حملے کے واقعات کی تحقیق کی جائے گی۔

'اطلاعات روز' کے مدیر ذکی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے تشدد نے افغانستان میں میڈیا کے لیے تشویش کا پیغام دیا ہے۔

طالبان کی جانب سے صحافیوں کے گھروں کی تلاشی، انخلا کے عمل میں تیزی

اس واقعے کے ایک روز بعد انہوں نے جمعرات کے روز رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ’’پانچ ساتھیوں کو چار گھنٹے تک حراستی سینٹر رکھا گیا، ان چار گھنٹوں کے دوران ہمارے دو ساتھیوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘

مدیر کے مطابق،دونوں زخمی رپورٹروں کو ڈاکٹروں کی جانب سے دو ہفتے آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔

لیکن، بعض افغان شہری تشدد کے ایسے واقعات کے بعد طالبان کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان میں خاتون صحافی کو کام سے کس نے روکا؟

تشدد کا نشانہ بننے والے رپورٹروں میں سے ایک رپورٹر تقی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سات یا آٹھ افراد نے انہیں مبینہ طور پر دس منٹ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔

بقول ان کے، ’’وہ ڈنڈوں سے پورا زور لگا کر ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمیں مارنے پیٹنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ ہم بے ہوش ہو گئے ہیں تو انہوں نے ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ لاک اپ میں بند کر دیا۔‘‘ خبر رساں ادارہ رائیٹرز اپنے طور پر اس بیان کی تصدیق نہیں کرسکا ہے۔

طالبان کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک کئی صحافی اس قسم کی شکایات سامنے لا چکے ہیں اور بعض خاتون صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اپنی میڈیا کی ملازمتیں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

ذکی دریابی کے بقول ’’حکومت کے یکدم انہدام کے بعد 'اطلاعات روز' نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس امید پر اپنا کام جاری رکھیں گے کہ میڈیا اور صحافیوں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’کل کے واقعے کے بعد، ملک میں میڈیا اور صحافیوں کے مستقبل کے بارے میں جو امید باقی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG