کرونا کی دوسری لہر میں شدت: کیا پاکستان لاک ڈاؤن کی جانب بڑھ رہا ہے؟

فائل فوٹو

پاکستان میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز اور اموات کی شرح میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہو گیا ہے۔ جولائی کے بعد پہلی مرتبہ بدھ کو 3000 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ کیسز میں حالیہ اضافے کے پیشِ نظر مختلف پابندیاں بھی عائد کی جا رہی ہیں۔

اس سلسلے میں ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی وبا کی روک تھام کے سلسلے میں طے کردہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ ہونے سے کرونا کی دوسری لہر میں تیزی آ گئی ہے۔

پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس رواں برس 26 فروری کو رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد سے جون تک اِس وبا کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی گئی۔ تاہم جولائی میں صورتِ حال بہتر ہونا شروع ہوئی اور یہ سلسلہ ستمبر کے اوائل تک جاری رہا۔

پاکستان میں کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں قائم کمیٹی نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے مطابق ستمبر کے وسط سے پاکستان میں ایک مرتبہ پھر کرونا کیسوں کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے احتیاط نہ کی تو مستقبل میں جون کے مہینے جیسی صورتِ حال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جون میں عالمی وبا پاکستان میں عروج پر تھی۔

این سی او سی کے سربراہ اسد عمر نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بدھ کو رپورٹ ہونے والے کرونا کے اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے کہا کہ جو آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ کرونا سے کچھ نہیں ہو گا، وہ آپ کی صحت اور روزگار دونوں کے دشمن ہیں۔

یاد رہے کہ بدھ کو پاکستان میں کرونا کے تین ہزار سے زیادہ نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور یومیہ کیسز کی شرح سات فی صد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کرونا کے فعال کیسز کی تعداد 42 ہزار 115 ہو گئی ہے۔ عالمی وبا سے اب تک 7800 سے زیادہ اموات اور تین لاکھ 80 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

حکومت کی جانب سے قائم کردہ کرونا ایڈوائزی گروپ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت کی رائے میں پاکستان میں کرونا کیسوں کی شرح میں اچانک اضافہ نہیں ہوا بلکہ یہ بتدریج بڑھ رہے ہیں۔

اُن کے بقول اِس سلسلے میں حکومت کو آگاہ بھی کر دیا گیا تھا کہ ایسا ہو گا کیوں کہ لوگوں کی جانب سے آہستہ آہستہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل ترک کر دیا گیا تھا۔

ڈاکٹر محمود شوکت نے کہا کہ پاکستان میں سب لوگوں نے احتیاطی تدابیر کو بالکل چھوڑ دیا تھا جب ساری دنیا میں مہلک مرض کی دوسری لہر آ رہی ہے تو یہاں بھی آنے کا بالکل امکان تھا۔

ڈاکٹر محمود شوکت کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اب بھی پاکستان میں کئی افراد ایسے ہیں جو اس بیماری کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

پاکستان کی کرونا ایڈوائزری گروپ کی ممبر اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار کہتی ہیں کہ پاکستان میں کرونا کیسز میں اضافہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس میں روزانہ کی بنیاد پر تیزی آ رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اُن کے بقول ستمبر سے قبل اسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی یومیہ شرح چار یا پانچ تھی، لیکن گزشتہ تین ہفتوں میں یہ شرح بڑھ کر 20 فی صد تک جا پہنچی ہے۔

ڈاکٹر صومیہ اقتدار سمجھتی ہیں کہ لوگوں کے میل جول میں اضافے کے باعث کرونا کیسز میں اضافہ ہوا اور موسمِ سرما کے دوران بھی وائرس کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان: موسمِ سرما میں کرونا کی شدت بڑھنے کا خطرہ

کرونا کیسز میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت کی رائے میں پاکستان میں آئندہ چند ہفتوں تک کیسز کی شرح میں اضافے کا امکان ہے۔

اُن کے بقول آئندہ سال جنوری میں صورتِ حال زیادہ خراب ہو سکتی ہے اور کیسز میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔

ڈاکٹر محمود کے مطابق جب بھی کسی بیماری میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے تو قدرتی طور پر کچھ عرصے کے بعد اُس میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

ڈاکٹر صومیہ اقتدار سمجھتی ہیں کہ سردیوں میں کسی بھی وائرس کے پھیلنے کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔

اُن کے بقول لوگ کھلے مقامات کے بجائے ان ڈور میل جول بڑھا دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔

ڈاکٹر صومیہ سمجھتی ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں میں لوگوں کا سماجی میل جول بہت بڑھ گیا تھا۔ لوگوں نے احتیاط کرنا بھی تقریباً چھوڑ دی تھی کچھ مہینوں سے شادیاں بھی ہو رہی ہیں اور اسکول بھی کھل گئے تھے۔

ایک جانب جہاں پاکستان میں کرونا کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہیں حکومت نے بعض پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش کے علاوہ شادی ہالوں میں ان ڈور تقریبات اور ریستورانوں میں ڈائنگ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

ادھر حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف جلسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھنے پر مصر ہیں۔ تاہم حکومت نے خبردار کیا ہے کہ جلسوں کی صورت میں قائدین کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔

حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ کی کرونا کمیٹی کا بھی بائیکاٹ کرتے ہوئے اِس کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا کہ بدھ کو ہونے والا اجلاس کرونا وائرس کی صورتِ حال کے بارے میں بلایا گیا تھا۔

کرونا وبا کے پھیلاؤ اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا ویکسین پاکستان میں کب ملے گی؟

ورلڈ اکنامک فورم نے کرونا وائرس سے متعلق پاکستان کی پالیسیوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے 25 نومبر کو 'پاکستان اسٹریٹیجی ڈے' منانے کا اعلان کیا ہے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان اور متعدد وزیر ورلڈ اکنامک فورم کے پاکستان سے متعلق کنٹری اسٹریٹجی ڈائیلاگ کے موقع پر بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہان اور دنیا کی کاروباری شخصیات سے ملاقات کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کا 'پاکستان اسٹریٹجی ڈے منانا عمران خان کی کووڈ-19 کے خلاف کامیاب پالیسیوں کا اعتراف ہے۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیوسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے بتایا کہ ادویات بنانے والی بین الاقوامی کمپنی فائزز پہلے سے پاکستان میں موجود ہے اور کام بھی کر رہی ہے۔

حال ہی میں فائزر نے نجی کمپنی چغتائی لیب کے ساتھ ملک بھر میں مختلف جگہوں پر ویکسینیشن سینٹرز بنانے کی مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے ہیں۔