Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
فیصل ایدھی میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد سے ان کی والدہ بلقیس ایدھی بیٹے کی صحت سے متعلق خاصی فکر مند ہیں۔ وبا کے ان دنوں میں ایدھی خاندان اور ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار کس طرح کام کر رہے ہیں؟ ہماری نمائندہ سدرہ ڈار نے اس بارے میں بلقیس ایدھی سے بات چیت کی ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث لاک ڈاؤن کئی افراد کے روزگار کی بندش کا سبب بن گیا ہے۔ ایسے میں بہت سی فلاحی تنظیمیں متاثرین کو راشن فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن کراچی کی ایک فیملی نے اس سے بھی زیادہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہ خاندان کیسے اُن لوگوں کی مدد کر رہا ہے؟ دیکھیے سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ یہ بہتر طور پر پرکھ سکتے ہیں کہ کون مجبوری میں نکلا ہے اور کون شوقیہ۔ ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرنا کچھ مناسب نہیں۔
پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی کے ایک قبرستان میں کرونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین کے لیے جگہ مخصوص کی گئی ہے جہاں صرف چار افراد میت کی تدفین کرتے ہیں۔ کرونا سے مرنے والوں کی تدفین کا احوال جانیے ایک گورکن کی زبانی۔
پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف مریضوں کا علاج کرنے والے معالجین اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اپنے کام مصروف ہیں۔ وہیں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کرنے والا عملہ بھی ہر وقت کرونا وائرس کے خوف میں جی رہا ہے۔
عباس علی کے مطابق جن لوگوں نے یہ کام شروع کیا ان کے انتقال کے بعد نئی نسل اس کام میں نہیں آئی جبکہ کچھ لوگ واپس ایران چلے گئے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے باعث متاثرہ افراد کی مدد کے لیے راشن کی تقسیم جاری ہے۔ کراچی کی ایک سماجی تنظیم کے رضاکار اقلیتی برادری میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ رضاکاروں کے مطابق راشن کی تقسیم میں عموماً غیر مسلم نظر انداز ہوجاتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے اس کمیونٹی کو اپنا ہدف بنایا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث جاری لاک ڈاؤن کے باوجود صحافیوں کو خبروں کی تلاش میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے وائرس سے متاثر ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ ملیے کراچی کے ایک ایسے ہی صحافی سے جنہیں کرونا کے شبہے میں اپنا ٹیسٹ کرانا پڑا۔ انہیں یہ ضرورت کیوں پیش آئی اور ٹیسٹ کیسے ہوا؟ جانیے اس رپورٹ میں
ڈاکٹروں کا ایک نیٹ ورک 'صحت کہانی' کے نام سے لوگوں کو کرونا وائرس اور دیگر امراض سے متعلق آن لائن مفت مشورے دے رہا ہے۔ اس نیٹ ورک کی بانی ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں ان کا مقصد ٹیلی میڈیسن کے ذریعے لوگوں کو آسانی فراہم کرنا ہے۔
کرونا وائرس کے باعث پاکستان میں ماسک کی طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک طرف جہاں اس وبا سے کاروبار متاثر ہوا ہے وہیں ایک گارمنٹ فیکٹری نے کینسل ہونے والے آرڈرز کی جگہ ماسک بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ماسک کیسے تیار ہو رہے ہیں؟ مزید جانیے سدرہ ڈار کی ڈیجیٹل رپورٹ میں
کراچی میں لاک ڈاؤن کے باعث شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اب بھی بہت سے افراد حکومتی ہدایات پر عمل درآمد سے گریز کر رہے ہیں۔ جس کے باعث سیکیورٹی اداروں کو ان سے سختی سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔
کرونا وائرس کے سبب سندھ میں لاک ڈاؤن جاری ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن معمولاتِ زندگی متاثر ہونے سے مزدور طبقہ شدید پریشانی کا شکار ہے۔ تفصیلات سدرہ ڈار کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
لاک ڈاون کے پہلے روز شہر بھر کی صورت حال کیا رہی اس کی رپورٹنگ کی غرض سے جب باہر نکلنا ہوا تو پہلی دشواری کریم سروس کی بندش سے ہوئی۔ جن کی جانب سے پیغام دیا گیا کہ حالات کے پیش نظر وہ اپنی سروس معطل کر رہے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کرونا وائرس کے سبب جزوی لاک ڈاؤن ہے۔ لیکن اس وبا کے خوف کو کم کرنے کے لیے گرلز اور بوائز اسکاؤٹس سڑکوں پر نکل کر لوگوں کو کرونا وائرس سے متعلق آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ دیکھیے سدرہ ڈار کی ڈیجیٹل رپورٹ میں۔
کیش کاؤنٹر پر کھڑا نوجوان کہنے لگا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سینیٹائرز شیلف میں رکھے رکھے دھول جم جاتی تھی۔ ہمیں بھی یہ لگتا تھا کہ اگر اس کی ضرورت ہے ہی نہیں تو یہ کیوں رکھی ہے؟ آج یہ وقت ہے کہ اسی کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔
آن لائن کتب بینی کے سبب ملک بھر سے کتب خانے کم ہوتے گئے لیکن کراچی کا سب سے قدیم کتاب گھر 'پائنیر بک ہاؤس' آج بھی اُسی جگہ قائم ہے جہاں قیامِ پاکستان سے قبل اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کتابوں کی فروخت میں کمی جیسے مسائل کے باوجود یہ کتاب گھر کس طرح کام کرتا رہا۔ جانیے سدرہ ڈار کی اس ڈیجیٹل رپورٹ میں
کراچی میں کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں تنگ گلیوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں نہ دکھائی دیں۔ ٹھیکے دار یا بلڈرز کوئی بھی پرانا گھر خرید کر اس پر پورشن کے نام پر کئی منزلیں تعمیر کرتے ہیں۔
خواتین کے عالمی دن پر ہونے والا عورت مارچ اپنے نعروں اور مطالبوں کے سبب زیر بحث ہے۔ مختلف حلقے اس مارچ پر الگ رائے رکھتے ہیں۔ عورت مارچ کے مخالفین کے کیا اعتراضات اور تحفظات ہیں اور مارچ کے حامیوں کا ان اعتراضات پر کیا مؤقف ہے؟ جانیے سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں
پاکستان میں 'عورت مارچ' اور اس میں لگائے جانے والے نعروں پر کچھ حلقے خاصی تنقید کرتے ہیں۔ عورت مارچ میں اس طرح کے نعروں کی وجہ کیا ہے اور ان نعروں کا کیا اثر ہوتا ہے؟ وائس آف امریکہ نے اس بارے میں حقوقِ نسواں کی دو معروف رہنماؤں شیما کرمانی اور حنا جیلانی سے بات کی۔
پاکستان کرکٹ کے سپورٹر چاچا پاکستانی اپنے منفرد لباس کی وجہ سے گراؤنڈ میں الگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پاکستان سپر لیگ کے کئی میچز گراؤنڈ میں دیکھ چکے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کرکٹ سے پیار کرتے ہیں اور ان کا ملک پُرامن ملک ہے۔
مزید لوڈ کریں