درجنوں مشتبہ پاکستانی طالبان نے دیر کے مسکینی درہ میں چوکی پر حملہ کیا مگر اسے پسپا کردیا گیا اور لڑائی میں پانچ جنگجو مارے گئے۔
چھاؤنی میں قائم حراستی مرکز سے فرار ہونے والے مشتبہ جنگجوؤں کی اصل تعداد کے بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
امن جرگے کے اہم رکن پر مبینہ طالبان شدت پسندوں کے حملے کے بعد مقامی آبادی علاقے میں پائیدار امن کے حوالے سے ایک بار پھر تذبذب کا شکار ہے۔
دھماکا تحصیل سلارزئی کے مرکزی پشت بازار میں ہوا اور دھماکے سے چھ دکانیں منہدم ہو گئیں۔
قبائلی علاقے کرم اور شمالی وزیرستان کے سرحدی علاقے میں حکومت کے حامی ایک جنجگو کمانڈر کے مرکز پر خودکش حملے میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 15 زخمی ہو گئے ہیں۔
ضلعی پولیس افسر وقار خان نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران چار اہلکاروں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
یہ میزائل حملہ شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں شدت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر کیا گیا
متاثرہ خاندانوں نے بتایا ہے کہ آسٹریلوی حکام کی حراست میں یا اسپتالوں میں زیرِ علاج 70 سے زائد پاکستانی اب تک اپنے رشتہ داروں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔
لنڈی کوتل کے مرکزی بازار سے متصل بس اڈے میں ذخا خیل قبیلے کے علاقے میں جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے میں 1,800 زیرحراست مشتبہ شدت پسندوں کو تین مراکز میں منتقل کیا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ کے محکمہ صحت کی دستاویزات کے مطابق شکیل آفریدی کو نرسوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور شراب نوشی جیسے سنگین الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔
جمیل آفریدی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے بھائی کے ساتھ ہونے والی ’’ناانصافی‘‘ کا ازخود نوٹس لے کر ان پر شفاف اور منصفانہ مقدمہ چلانے کو یقینی بنائیں۔
شکیل آفریدی نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی تصدیق کرنے کے لیے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے کی جعلی مہم چلائی تھی۔
ضلع کوہاٹ کے صدر خورشید شاہ بخاری کو شدید زخمی حالت میں پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں باجوڑ لیویز کے کمانڈنٹ میجر محمد جاوید اقبال اور ڈپٹی کمانڈنٹ صوبیدار میجر فضل ربی بھی شامل ہیں۔
شمالی وزیرستان میں اتوار کو ہونے والے حملے میں کم از کم تین مبینہ عسکریت پسند ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔
ابتدائی مرحلے میں اس فیصلے کا اطلاق صرف پشاور شہر میں کیا جائے گا جہاں اُن کے بقول اندازاً چار لاکھ افغان غیرقانونی طور پر یا پھر اندراج کے بغیر آباد ہیں۔
فرار ہونے والے تمام قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی چار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں
صوبائی حکام نے بتایا ہے کہ فرار ہونے والوں میں بڑی تعداد مشتبہ طالبان شدت پسندوں کی ہےجن میں کم از کم 20 انتہائی مطلوب قیدی بھی شامل ہیں.
عسکریت پسندوں نے اپر اورکزئی ایجنسی کے خادیزئی گاؤں میں فرنٹئیر کور کی ایک چوکی پر اچانک حملہ کردیا جس کے بعد علاقے میں شدید لڑائی شروع ہوگئی اور جوابی کاورائی میں متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کردیا گیا۔
مزید لوڈ کریں