عاصم علی رانا وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔
رواں سال حجاج کی تعداد میں کمی کی ایک بڑی وجہ زائد اخراجات ہیں۔ گزشتہ سال تک سات لاکھ دس ہزار روپے سے یہ رقم اس بار بڑھ کر 11 لاکھ 75 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس رقم میں ہوائی ٹکٹ، 40 روزہ قیام کے دوران ہوٹل، کھانا پینا اور قربانی کے اخراجات شامل ہیں۔
دورے کے دوران آرمی چیف نے پیپلز پارٹی لبریشن آرمی ہیڈ کوارٹر میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے کے حوالے سے بات چیت کی۔
پاکستان فوج کے قریب سمجھے جانے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف نے معاشی مشکلات کا تو کہا ہوگا لیکن بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کا بیان مبالغہ آرائی ہے۔
پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود 14 مئی کو الیکشن ہوں گے یا نہیں، اب تک واضح نہیں ہے۔ چیف جسٹس اور انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دینے والے دو ججوں سے فوج کے دو اداروں کے سربراہان نے ملاقات کرکے بریفنگ دی ہے۔
’’مفتی عبد الشکور سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ وہ شام میں زیادہ تر اپنی گاڑی خود ہی چلا کر جہاں جانا ہوتا تھا، نکل جاتے تھے۔ وہ ڈرائیور اور محافظ بھی ساتھ نہیں رکھتے تھے۔ اکثر ان کا کہنا ہوتا تھا کہ ان کے ڈرائیور اور گن مین کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا ہے تو انہیں تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ حکومت کو پارلیمنٹ نے فنڈز دینے سے منع کیا ہے تو کیسے جاری کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
مفتی سعید کے عدالت میں جمع کرائے گئے بیانِ حلفی کے مطابق عمران خان نے انہیں بتایا تھا کہ بشریٰ بی بی سے نکاح کرنے پر پیش گوئی تھی کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کوششیں پہلے سے جاری تھیں اور ان میں سردار تنویر الیاس کے بیانات نے آسانی پیدا کردی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کے لیے موزوں وقت کا انتخاب الیکشن کمیشن کا اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کمیشن کے اختیار پر حرف آتا ہے۔
حافظ قرآن کے 20 اضافی نمبروں کے حوالے سے شروع ہونے والا یہ کیس ایک بڑا تنازع بنتا جارہا ہے جس میں سینئر جج صاحبان ایک دوسرے کے فیصلوں کو مسترد کررہے ہیں۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کی سیاست میں مداخلت نے جہاں اداروں کو تقسیم کیا وہیں اس کے اثرات اب معاشرے میں تقسیم کی صورت میں نظر آ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے پنجاب میں 90 روز میں انتخابات کرانے کے فیصلے پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری قوتیں اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گی۔ تجزیہ کار حامد میر کے مطابق اس وقت اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم جب کہ عدلیہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ رپورٹ دیکھیے۔
عدالتی فیصلے سے قبل ہی حکومت کی جانب سے اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ" قوم الیکشن التوا کے معاملے پر فل کورٹ کا فیصلہ ہی تسلیم کرے گی۔"
پاکستان میں حکومت کی طرف سے پارلیمان میں اہم قانون سازی جاری ہے اور عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور کیا جا چکا ہے۔ ان ترامیم کے بعد عدلیہ اور حکومت میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلافات اور ٹکراؤ کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سوموٹو مقدمات مقرر کرنے اور بنچز کی تشکیل کے لیے اس وقت رولز موجود نہیں۔ رولز کی تشکیل تک اہم آئینی اور ازخود مقدمات پر سماعت مؤخر کی جائے۔
سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کوتنقیدی خط لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت سے پانچ برس قید کی سزا پانے والے حسن عسکری کے والدین نے خاموشی توڑ دی ہے۔ حسن کے والد میجر جنرل (ر) ظفر مہدی کا کہنا ہے کہ ہمارا دل ٹوٹ چکا ہے نہیں معلوم کہ انصاف کے لیے کہاں جائیں۔ دیکھیے یہ رپورٹ۔۔
افواجِ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم پیدا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی، لہذٰا قومی سلامتی کے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان اختلاف رائے کا معاملہ مزید بڑھ گیا ہے ۔سپریم کورٹ کے دو ججوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دیے گئے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے الیکشن کمیشن از خود نوٹس کیس میں اختلافی فیصلہ دیا ہے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے درمیان خطوط کا تبادلہ جاری ہے جس میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر آئین شکنی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔وزیرِ اعظم کی طرف سے صدر کو لکھے جانے والے حالیہ خط میں وزیرِ اعظم نے صدر کو کہا کہ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج غیرسیاسی ہونے کا کہہ رہی ہے لیکن ان کے بعض ادارے ابھی بھی سیاست میں شامل ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہوگی اور انہیں براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہیے۔
مزید لوڈ کریں