طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے نہ صرف عام عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہیں بلکہ افغان نیشنل آرمی کے سیکڑوں فوجی جان بچانے کی غرض سے سرحد عبور کر چکے ہیں۔
سترہ اور 18جولائی کو افغان طالبان اور حکومتی وفود کے درمیان مذاکرات کے دو ادوار ہوئے تھے، تاہم فریقین تنازع کے حل کی جانب کوئی بڑی پیش رفت نہیں کر سکے تھے۔
اس وقت افغانستان میں شدید لڑائی جاری ہے۔ لیکن طالبان ابھی تک کہیں بھی اپنا مستقل کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ جنگ لڑائی جاری رکھنے سے ختم نہیں ہوتی۔
افغانستان کے شہر قندھار میں طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی کے باعث بھارت نے چند روز قبل اپنے قونصل خانے سے بھارتی عملہ واپس بلا لیا تھا جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے اسپن بولدک میں افغانستان کو پاکستان سے ملانے والی شاہراہ کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا ہے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے افغانستان کی صورتِ حال اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات کے بیانات ایسے موقع پر سامنے آ رہے ہیں جب طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
افغان خواتین کا کہنا ہے کہ افغانستان کے حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ زدہ ملک ہے۔ 40 سال سے یہاں شورش ہے۔ اس ملک میں 20 لاکھ سے زائد بیوہ خواتین ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے لیے روزگار سے وابستہ ہیں۔ افغانستان ایک غریب ملک ہے۔ اگر وہ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گی تو اپنے بچوں کی کفالت کیسے کریں گی؟
پریم تلریجا کا کہنا تھا کہ مندر سے ملحقہ گھر خریدنے سے علاقے میں یہ تاثر پھیلا کہ جیسے ہندو برادری علاقے میں اپنی آبادی بڑھانا چاہتی ہے۔
یکم مئی سے اب تک طالبان 150 سے زیادہ اضلاع پر قابض ہو چکے ہیں اور اب وہ صوبائی دارالحکومتوں کی جانب گامزن ہیں۔
طالبان ملک کے ایک تہائی حصے پر قابض ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے علاقے کا مبینہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کے خوف کا شکار زیادہ تر لوگ ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔
افغان حکام طالبان کے دعووں کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے بقول کئی اضلاع طالبان کے قبضے سے واگزار کرا لیے گئے ہیں جب کہ طالبان کو بھاری جانی نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔
'دی ڈیانا ایوارڈ' برطانیہ کی شہزادی لیڈی ڈیانہ کی یاد میں قائم ہوا۔ جس کے تحت سیکڑوں افراد کو یہ ایوارڈ مختلف کیٹگریز میں دیا جاتا ہے۔
مبصرین کے مطابق بھارت کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ بھارت کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ افغانستان میں سفارتی مشن فعال رہیں اور طالبان کشمیر کے مسئلے سے خود کو الگ کر لیں۔
پاکستان کے لئے افغانستان کے سابق سفیر ڈاکٹر حضرت عمر زخیلوال کا کہنا ہے کہ "ہمارے ملک اور خطے میں امریکہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ لہٰذا افغان سیاسی قیادت کے لئے اعلیٰ سطح پر امریکی حکومت کے ساتھ بات چیت کے عمل کا کوئی بھی موقع اہم ہوتا ہے۔"
’’افغانستان میں تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، افغان حکومت بھی اس کی کافی حد تک ذمہ دار ہے، پاکستان مستحکم اور پرامن افغانستان چاہتا ہے۔‘‘
امریکہ نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں طاقت کے ذریعے مسلط کردہ حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے افغان صدر نے طالبان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ اور بات چیت دونوں کے لیے تیار ہیں۔
مبصرین کے مطابق نیٹو اور امریکہ ایک سال سے بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت کچھ بنیادی امداد کے ساتھ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے کیوں کہ یہ اقدام افغانستان میں قائم سفارتی مشن کے لیے بہت اہم ہے۔
افغانستان میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی تشویش ناک شکل اختیار کر گئی ہے اور کئی علاقوں میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان اب بھی جھڑپیں جاری ہیں۔
سماجی کارکن شازیہ کیانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کے دنوں میں حویلی کا علاقہ ایک خونی لکیر بن جاتی ہے جو کہ دنگا فساد کے لیے مشہور ہے۔
پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات مشاہد حسین سید کے مطابق، ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ سویلین حکومت کا تھا۔ تینوں سروسز چیفس میں سے ایک نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی، ایک نے حمایت کی اور ایک نے وزیرِ اعظم سے کہا کہ آپ خود فیصلہ کریں۔
مزید لوڈ کریں