وزیرِ اعظم کو اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں: اٹارنی جنرل
ڈپٹی اسپیکر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات کھلی عدالت میں نہیں دے سکیں گے۔ عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔
ان کے بقول قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گی۔ وہ قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے اور ایسا کرنے کے لیے وزیرِ اعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔
اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر وزیرِ اعظم کی سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔
ایوان کی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے۔ آئین ارکان کی نہیں ایوان کی پانچ سالہ میعاد کی بات کرتا ہے۔
انہوں نے دیگر ممالک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیرِ اعظم کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے جب کہ پاکستان کے آئین میں اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار وزیرِ اعظم کے پاس موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ ان کا آخری کیس ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر یہ ان کی خواہش ہے تو انہیں یہ منظور ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ پوری بات تو سن لیں۔ وہ چاہتے ہیں خالد جاوید اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔
اسمبلی کی کارروائی کے حوالے سے دلائل جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا۔ ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے۔ اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کے لیے عدالت نہیں آ سکتا۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کیا کہنا چاہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ایوان کے قواعد سے مشروط ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے اس پر عدالت فیصلہ کرے گی۔ اگر اسپیکر کم ووٹ لینے والے شخص کو وزیرِ اعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسپیکر ایوان کا نگران ہے۔ وہ صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بیٹھتے۔ اسپیکر ایسا تو نہیں کر سکتے کہ اپنی رائے دے باقی ارکان کو گڈ بائے کہہ دے۔
اٹارنی جنرل کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ تحریک پیش کرنے کی منظوری کے لیے 20 فی صد یعنی 68 ارکان کا ہونا ضروری نہیں۔ انہوں نے سوال بھی اٹھایا کہ اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیرِ اعظم فارغ ہو جائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کے لیے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں ملک کی سیاسی صورتِ حال پر سماعت جاری ہے۔
انتظامیہ نے سپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی مزید سخت کر دی ہے اور پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی کے اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
سیکیورٹی اہلکاروں نے حفاظتی آلات پہنے ہوئے ہیں جب کہ ان کے پاس ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈنڈے اور دیگر اشیا بھی ہیں۔
سیکیورٹی کے اضافہ نفری نہ صرف عدالت کے باہر نظر آ رہی ہے جب کہ عمارت کے اندر بھی مزید اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں۔
’ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے‘
قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر رولنگ غلط ہے۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 20 فی صد ارکان نے جب تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی تو بحث کرانی چاہیے تھی۔ وزیرِ اعظم کو سب معلوم ہوتا ہے وہ ارکان سے پوچھتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہو سکتی تھی؟
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی۔ تحریکِ عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔
اس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ اسپیکر نے قرار دے دیا کہ تحریک منظور ہو گئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہو سکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا۔ تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا۔ اگر 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟
انہوں نے مزید کہا کہ ایوان کی مجموعی ارکان کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی۔ تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے۔ ووٹنگ کے لیے 172 ارکان ہونے چاہیے۔ لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں۔ آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیئں تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تحریک منظور کرنے کی اسپیکر نے رولنگ دے دی تو بات ختم ہو گئی۔ اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا۔ تین اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپ کو سننا چاہتے ہیں۔
تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور اسپیکر کی رولنگ میں کتنے وقت کا فرق ہے۔
قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے حوالے سے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب دیکھنا ہے کہ اب اگلا قدم کیا ہو گا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ رولنگ کا دفاع نہیں کر رہے۔ ان کے خدشات نئے انتخابات کے حوالے سے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ قومی مفاد کو بھی عدالت نے دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ عدالت نے آئین کو مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔ کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا۔ عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں۔ نتائج میں نہیں جائیں گے۔
ڈالر 188 روپے سے تجاوز کر گیا
پاکستان میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق ملک کی سیاسی صورتِ حال کے سبب جمعرات کو ڈالر مزید دو روپے 22 پیسے مہنگا ہو گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق انٹر بینک میں ڈالر پہلی بار 188 روپے 35 پیسے میں فروخت ہو رہا ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 188 روپے 50 پیسے کا ہو گیا ہے۔
ایک جانب ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ بھی مندی کا شکار ہے۔