'کرونا کے دور میں بیس سال کا ہونا آسان نہیں'
حالیہ اندازوں کے مطابق کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو کرونا ویکسین سب سے آخر میں ملے گی۔
امریکہ میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی کے مطابق امریکہ میں کالج و یونیورسٹی کے طلبہ کو کرونا ویکسین شاید اپریل کے آخر میں جا کر لگے گی۔ ان میں ایسے طلبہ کو استثنیٰ حاصل ہو گا جن کا تعلق یا تو طبی شعبے سے ہو یا انہیں کینسر یا امیونو ڈیفیشنسی جیسا مرض لاحق ہو۔
امریکی ادارے نیشنل اکیڈیمکس اینڈ سائنسز، انجنئیرنگ اینڈ میڈیسنز کے لگائے گئے ایک تخمینے میں، جس میں دیکھا گیا کہ آبادی کے کس طبقے کو کب ویکسین دی جائے گی، نوجوانوں کو ترجیحی لسٹ میں سب سے آخر میں رکھا گیا ہے۔
اس تخمینے میں بڑی عمر کے افراد کو یا ایسے افراد جنہیں طبی پیچیدگیاں لاحق ہیں، ترجیحی فہرست میں سب سے پہلے رکھا گیا ہے۔
یہ تخمینہ امریکہ کے وبائی امراض کے ادارے سی ڈی سی کی ہدایت پر لگایا گیا اور اس پر عمل ریاست کی جانب سے کیا جائے گا۔
امریکہ میں طلبہ چاہتے ہیں کہ کالج کیمپس جلد از جلد کھل جائیں۔ تاکہ فرداً کلاس لی جا سکے۔ امریکہ میں اب تک 1900 سے زائد کالج و یونیورسٹیوں میں چار لاکھ سے زائد طلبہ کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جن میں سے 90 طلبہ کی موت بھی ہوئی ہے۔
ابھی تک کرونا وائرس کی ویکسین 65 برس سے زائد عمر کے افراد کو مل رہی ہے اور جب ویکسین کی خوراکیں دستیاب ہوں گی تو نوجوانوں کو بھی ویکسین دی جانے لگے گی۔
مریضوں میں علامات عالمی نظامِ صحت کے لیے بڑا چیلنج
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد بھی مریضوں میں اس کی علامات کے اثرات عالمی صحت پر ہوں گے اور اس کی وجہ وبا کی شدت ہے۔
ڈبلیو ایچ او اس بارے میں تحقیق کر رہا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے چھ ماہ بعد بھی لوگ کیوں کر مختلف تکالیف کا شکار رہتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ہیلتھ کیئر ریڈی نیس کی ٹیم ڈائریکٹر جینیٹ ڈیاز کا کہنا ہے کہ وائرس کے بعد کی علامات کے ساتھ کچھ لوگ جنہیں لانگ کووڈ کے نام سے بھی شناخت کیا جاتا ہے، کام پر واپس جانے کے قابل نہیں ہوئے۔ ایسے مریضوں میں معذوری کی علامات اُن کی مکمل بحالیٔ صحت کے عمل کو طویل بنا رہی ہیں۔
جینیٹ ڈیاز کہتی ہیں کرونا کے بعد مریضوں میں جو علامات عام ہیں، ان میں تھکاوٹ، سر درد اور حواسِ خمسہ کا مکمل فعال نہ ہونا شامل ہیں۔
فلم سازوں کی اسٹریمنگ سروسز سے معاہدے کر کے سرمایہ کاری بچانے کی کوشش
دنیا بھر کے سنیما کرونا وائرس کی وجہ سے نئی فلمیں ریلیز نہ ہونے اور مختلف ملکوں میں ایس او پیز پر عمل درآمد کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں فلم میکرز اسٹریمنگ سروسز سے معاہدے کر کے اپنی سرمایہ کاری بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
بہت سے پروڈیوسرز اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ اپنی فلم اسٹریمنگ سروس کو دیں یا ویکسین عام ہونے کے بعد تک کا انتظار کریں تاکہ اسے سنیماؤں میں ریلیز کیا جا سکے۔
متعدد ہالی وڈ فلم میکرز نے اپنی فلموں کی ریلیز آگے بڑھا دی ہے تاکہ جب سنیما کھلیں تو شائقین ان کی فلمیں تھیٹر میں دیکھ سکیں۔
بعض پروڈیوسرز نے اسٹریمنگ سروسز کے ساتھ معاہدے کر لیے ہیں تاکہ اگر سنیما وقت پر نہ کھلے تو اُن کی فلم شائقین تک ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے پہنچ جائے۔
جلد ہی زیک اسنائیڈر کی 'جسٹس لیگ' ایچ بی او میکس پر ریلیز ہو گی جب کہ 'ونڈر وومن' کا سیکوئل گزشتہ دسمبر میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی زینت بن چکا ہے۔
کرونا ویکسین لگانے کے بعد سفر کرنا کتنا محفوظ ہے؟
وائس آف امریکہ کے مستقل سلسلے 'لائف 360' صحت مند زندگی گزارنے کے بارے میں معلومات پر مشتمل ہے۔ آج کا موضوع کرونا وائرس ہے۔ صبا شاہ خان جائزہ لے رہی ہیں کہ کیا دو فیس ماسک پہننا ایک سے بہتر ہے اور کیا کرونا ویکسین لینے کے بعد سفر پر نکلنا محفوظ ہے؟