ویکسین کورس مکمل ہونے کے باوجود سینیٹر لنزی گراہم کا کرونا ٹیسٹ مثبت
امریکی سینیٹر لنزی گراہم پہلے سینیٹر بن گئے ہیں جن کا ویکسین لگوانے کے بعد بھی کرونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔ ان کے بقول وہ خوش ہیں کہ انہوں نے کرونا کے خلاف ویکسین لگوا رکھی تھی ورنہ ان میں کرونا کی علامات کہیں زیادہ شدید ہو سکتی تھیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق سینیٹر گراہم کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کئی اراکین کانگریس کو کرونا ٹیسٹ کے لیے جانا پڑا اور انہوں نے اپنی صحت کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
ریاست ساؤتھ کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنزی گراہم کے ساتھ سینیٹ میں ان کے چند ساتھیوں نے اختتام ہفتہ دفتری امور کی انجام دہی اور میل ملاپ میں وقت گزارا تھا۔
لنزی گراہم نے سینیٹر جو منچن کے ساتھ ہاؤس بوٹ یعنی گھر نما کشتی میں شام گزاری تھی جہاں انہوں نے پہلی بار اپنے اندر کرونا کی علامات محسوس کی تھیں۔
پاکستان میں کرونا مثبت کیسز کی شرح سات فی صد سے زائد
پاکستان میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 3582 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 49 ہزار 798 افراد کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے جن میں مثبت کیسز کی شرح سات اعشاریہ ایک نو فی صد رہی۔
حکام کے مطابق عالمی وبا سے متاثرہ مزید 67 مریض دم بھی توڑ گئے ہیں۔
چین کے شہر ووہان میں وبا کی واپسی، ہر فرد کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ
چین کے شہر ووہان میں کرونا کیسز رپورٹ ہونے کے بعد تمام آبادی کے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ووہان میں ایک سال بعد پیر کو کرونا کے سات کیسز سامنے آئے تھے۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عالمی وبا نے یہاں سے جنم لیا تھا اور پھر پوری دنیا میں پھیل گئی تھی۔
ووہان کے حکام نے منگل کو کہا ہے کہ مقامی سطح پر ایک دوسرے میں منتقل ہونے والے کرونا کیسز سامنے آنے کے بعد شہر کی تمام ایک کروڑ 10 لاکھ آبادی کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
ووہان کے سینئر افسر لی تاؤ نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا ہے کہ تمام رہائشیوں کا نیوکلک ایسڈ ٹیسٹ کیا جائے گا۔
سندھ میں لاک ڈاؤن: سیاسی الزام تراشی کے شور میں متاثرہ طبقوں کی کون سنے گا؟
پانچ بچوں کے والد سلیم انور کراچی کی مشہور اقبال کلاتھ مارکیٹ میں جوس کارنر چلاتے ہیں۔ ان کی چھوٹی سی دکان ہونے کے باجود وہ اس قدر کما لیتے ہیں کہ اُن کے روزمرہ کے اخراجات آسانی سے پورے ہو جاتے ہیں۔
لیکن کرونا وائرس نے جہاں دیگر لوگوں کو متاثر کیا ہے وہیں ان کے حالات بھی بمشکل سنبھلے ہیں اور اب چوتھی لہر کے باعث مارکیٹیں اور کاروباری مراکز دوبارہ بند کرنے کے اعلان کے بعد انہیں بھی اپنی دکان نو روز متواتر بند کرنا پڑ رہی ہے۔
ان مشکلات کی وجہ سے اُن کے لیے پریشانی یہ ہے کہ دکان اور مکان کا کرایہ، بجلی کا بل اور پھر گھر کے اخراجات اور بچوں کی پڑھائی کے اخراجات وہ اگلے ماہ کس طرح چلا پائیں گے جب کہ پچھلے تین لاک ڈاؤن میں وہ اپنی جمع پونجی خرچ کر چکے ہیں۔
صرف سلیم ہی نہیں بلکہ ایسے لاکھوں دیہاڑی دار افراد اس گو مگو کی کیفیت سے گزر رہے ہیں کہ وہ کرونا وبا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے معاشی اثرات کا کس طرح مقابلہ کریں اور آخر کب تک؟ اس بے یقینی کی صورتِ حال کا سامنا طبی ماہرین سے لے کر حکومتی اداروں اور پھر عام عوام سبھی کو ہے جس کا حل اب تک نہیں مل پا رہا۔