یوکرین پر حملے کے بعد روس کی پیش قدمی جاری
رپورٹر کی ڈائری: ’ہمیں کہا گیا دو گھنٹے میں نکل جائیں ورنہ آپ روس میں ہوں گے‘
صبح سویرے پانچ بجے کا وقت ہو گا کہ فون بجنے لگے، واٹس ایپ، سگنل اور فیس بک پر ایسے پیغامات کا سیلاب آ گیا کہ ہم نے کیف میں دھماکہ سنا ہے۔ ماریوپول میں بھی ایسی آوازیں سنی گئی ہیں یا کراماٹوسک میں بمباری ہوئی ہے اور ایسی اطلاعات کا تانتا بندھ گیا۔
کچھ وقت کے بعد ہی سلیوینسک میں اپنے ہوٹل میں بھی ہمیں دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ عسکری اعتبار سے اہم مقام سے صرف 20 کلو میٹر دور ایک خاموش علاقے میں ہم اس صورتِ حال کے لیے پہلے سے تیار تھے بلکہ پہلے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی تیاری شروع کرچکے تھے۔
اگلے ہی گھنٹے ہماری ترجمان نے ہمیں بتایا کہ اب اس کا ہمارے ساتھ مزید کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور اسی طرح کئی ڈرائیورز نے بھی یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ ان بحرانی حالات میں اپنے اہلِ خانہ سے دور جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
صبح آٹھ بجے تک سڑکوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔ سودا سلف اور دواؤں کے اسٹورز پر بھیڑ لگ چکی تھی اور اے ٹی ایمز کے سامنے لمبی قطاریں نظر آئیں۔
روس کے یوکرین پر میزائل اور راکٹ حملوں سے تباہی
روس کی فوج کے یوکرین پر حملوں میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔ جمعرات کی صبح شروع ہونے والی اس فوجی کارروائی کے باعث ہلاکتوں کی بھی اطلاعات ہیں۔ دارالحکومت کیف سمیت یوکرین کے سرحدی شہروں پر روس نے جمعے کی صبح بھی میزائل اور راکٹ حملے کیے۔ دارالحکومت کیف سمیت یوکرین کے مختلف شہروں کی کئی عمارتیں تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ دیکھیے یہ پکچر گیلری
یوکرین میں پھنسے پاکستانی طلبہ؛ 'پہلے کہا جاتا تھا ملک میں رہیں اب کہہ رہے ہیں چلے جائیں'
'ایک بار پھر سے فضائی حملے شروع ہو گئے ہیں، ہر جانب سے سائرن کی آوازیں آ رہی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمیں اب محفوظ مقامات اور بنکرز کی جانب دوڑ کر اپنی جان بچانا ہو گی۔"
یہ کہنا ہے امیر حمزہ کا جو پاکستان کے علاقے دیر سے یوکرین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے اب وہ خارکیف میں محصور ہیں۔
صبح سویرے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ کے حوالے سے حمزہ کا کہنا تھا کہ طلبہ کو کہا گیا کہ وہ یوکرین کے شہر ترنوپل چلے جائیں، جہاں سے اُن کی بحفاظت واپسی کے انتظامات کیے جائیں گے۔ لیکن سفارت خانے نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں جانا کیسے ہے؟کیوں کہ باہر تو راستے بند ہیں، کوئی ایسی ٹرانسپورٹ سروس نہیں ہے جو ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے ان طلبہ کا رابطہ ٹوئٹر کے ذریعے ہوا جو پاکستانی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر گلہ کر رہے تھے کہ سینکڑوں طلبہ کے رابطہ کرنے کے باوجود سفارت خانہ جواب کیوں نہیں دے رہا؟