یوکرین پر بات چیت کے لیے مقام کا تعین نہیں ہوا، کریملن کا بیان
کریملن کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان امن بات چیت کا امکان ممکن نہیں لگتا چونکہ مذاکرات کے مقام کے بارے میں بظاہر اختلاف رائے موجود ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے جمعے کو ماسکو سے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے عہدے داروں کے ساتھ بات چیت کے لیے وفد بیلاروس کے دارالحکومت منسک بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جہاں صدر الیگزینڈر لکاشنکو روس نواز حکومت کے سربراہ ہیں۔
اس سے قبل آج ہی کے دن یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے یوکرین کی غیر جانبدار حیثیت کے معاملے پر غور کرنے کی پیش کش کی تھی، جس کے بعد یہ بیان سامنے آیا ہے۔
پیسکوف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ جب متعلقہ فریقوں نے منسک کو بات چیت کا مقام طے کرنا چاہا تو یوکرین کے عہدے داروں نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا کہ وہ منسک کا سفر کرنے پر تیار نہیں ہیں اور چاہیں گے کہ یہ مذاکرات نیٹو کے رکن، پولینڈ میں ہونے چاہئیں۔ پیسکوف کے مطابق، پھر انھوں نے مزید رابطہ ختم کر دیا۔
پوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمسایہ ملک پر حملے کے احکامات اس لیے ضروری ہو گئے تھے، کیونکہ، بقول ان کے، مغربی ملکوں نے روس کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ یوکرین کو نیٹو کا رکن نہ بنایا جائے۔
یوکرین پر حملے کے خلاف روس بھر میں مظاہرے، سینکڑوں افراد گرفتار
یوکرین پر روس کی فوجی کارروائیوں کے خلاف 24 فروری کو میڈیا رپورٹس کے مطابق روس کے 54 قصبوں اور شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس روز سب سے بڑا مظاہرہ ماسکو کے مرکزی چوک پشکن اسکوائر پر ہوا جس میں کئی ہزار افراد شریک ہوئے۔اس موقع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا۔
ماسکو سٹی کورٹ نے 25 فروری کو کہا کہ تقریباً 200 مظاہرین پر غیر منظور شدہ عوامی تقریبات میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
آرایف ای آر ایل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی معروف روسی راہنما مارینا لیٹوینووچ پر 25 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف ماسکو میں حکام سے اجازت حاصل کیے بغیر ریلی منظم کرنے کی کوشش پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

لیٹوینووچ کے وکیل فیوڈور سروش نے بتایا کہ ماسکو کی ایک ضلعی عدالت نے ان کی مؤکل پر 30 ہزار روبل یعنی 350 ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
لیٹوینووچ کو ایک روز قبل اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب انہوں نے روسیوں سے یوکرین پر حملے کے خلاف اپنے شہروں اور قصبوں میں مظاہرے کرنے کی اپیل کی تھی ۔
ایک اور خبر کے مطابق 250 روسی اسکالرز نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں یوکرین میں جنگ روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سینکڑوں روسی صحافیوں، گلوکاروں، مصنفین اور دیگر شعبوں کی مشہور شخصیات نے جنگ کی مذمت میں بیانات جاری کیے ہیں۔

روس سے روسی اور یوکرینی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار "نووایاگازیٹا" میں 25 فروری کو یہ وضاحت شائع کی گئی ہے کہ "اخبار کا عملہ یوکرینی کو دشمن کی زبان نہیں سمجھتا"۔
اخبار کے چیف ایڈیٹر، دمتری موراتوف نے، جو نوبیل انعام یافتہ ہیں، اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ "صرف روسی شہریوں کی جنگ مخالف تحریک ہی اس کرہ ارض پر انسانی ہلاکتوں کو بچا سکتی ہے۔"
روس کی ایک معروف گلوکارہ ویلری میلادزے نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں جنگ بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ" آج جو کچھ ہوا،وہ کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا"۔
رپورٹر کی ڈائری: ’ہمیں کہا گیا دو گھنٹے میں نکل جائیں ورنہ آپ روس میں ہوں گے‘
برطانیہ کے اخبار گارڈین نے اپنی 25 فروری کی اشاعت میں روس کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیس نے ملک بھر میں مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں 1700 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔
اخبار کا کہنا ہےکہ پولیس نے جمعرات کی شام تک روس کے 53 شہروں میں غیرقانونی مظاہروں کو منتشر کرتے ہوئے کم ازکم 1702 گرفتاریاں کیں تھیں۔زیادہ تر گرفتاریاں ماسکو اور روس کے ایک اور بڑے شہر سینٹ پیٹربرگ میں کی گئیں۔
گارڈین کے مطابق مظاہرین "جنگ نامنظور" کے نعرے لگا رہے تھے۔
جمعرات کو ایک آزاد ادارے لیواڈا سینٹر کے تحت کرائے جانے والے سروے کے مطابق یوکرین پر کریملن کے حملے کو صرف 45 فی صد روسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
ماسکو کے کارنیگی سینٹر کے سیاسی تجزیہ کار الیگزینڈر بونوف کہتے ہیں کہ " پوٹن سڑکوں پر عوامی منظوری سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے سیاست دان نہیں جنہیں عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ وہ قومی تاریخ کی کتابوں کی ایک ایسی شخصیت جیسے ہیں جو صرف مستقبل کے مورخین اور قارئین کی منظوری کا خیال کرتے ہیں"۔
یوکرین کے دارالحکومت کیف میں روسی حملے کے بعد اس وقت کیا صورت حال ہے؟ جانتے ہیں وائس آف امریکہ کی ہیڈر مرڈوخ سے۔
میانمار: ملٹری کونسل کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت
میانمار کی ملٹری نے جمعرات کو یوکرین پر روس کے حملے کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کے دھارے سے یکسر مختلف موقف اپنایا ہے۔ عالمی برادری نے یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کی نہ صرف مذمت کی ہے، بلکہ ماسکو کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرنے کا اقدام بھی کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی برمی سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے، میانمار کی فوجی کونسل کے ترجمان جنرل زو من تن نے فوجی حکومت کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حمایت کی وجوہ بیان کی ہیں۔
بقول ان کے، '' اول یہ کہ روس نے میانمار کی خودمختاری کو مستحکم کرنے میں مدد دی ہے، اس لیے، میرے خیال میں ہمارے لیے یہی اقدام درست ہے۔ دوئم یہ کہ دنیا کو بتایا جائے کہ روس ایک عالمی طاقت ہے''۔
فوجی انقلاب کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے گزشتہ سال جون میں روس کا دورہ کیا تھا، اور تب سے برما اور روس کی فوج کے مابین مضبوط مراسم قائم ہیں۔ روس اُن چند ملکوں میں سے ایک ہے جس نے یکم فروری 2021ء کے انقلاب کے بعد برما کی ملٹری کونسل کی حمایت کی تھی۔
اس فوجی بغاوت میں ایک سولین حکومت کا تختہ الٹا گیا، اور جمہوریت پنسد راہمنا آنگ سان سوچی اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تب سے، اقوام متحدہ اور برما کے دیگر ماہرین ملٹری کونسل کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، تاہم روس اس مطالبے کو نظرانداز کرتا آ رہا ہے۔
فروری کے اس فوجی انقلاب کا جواز پیش کرتے ہوئے ملٹری حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ نومبر 2020ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی جس میں سوچی کی 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' کو بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
جب کہ بین الاقوامی اور مقامی انتخابی مبصرین نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ 2020ء کے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ تھے، ماسوائے معمولی کمی بیشی کے۔
فوج کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جب سوچی کو حراست میں لیا گیا، تو ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن کا وہ سامنا کر رہی ہیں۔ انہیں غیر قانونی طور پر واکی ٹاکیز رکھنے اور کرونا وائرس کی پابندیوں کی خلاف ورزی کے لزامات پر پہلے ہی چھ سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔