افغانستان میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے،اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ طالبان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے دوران افغان لوگوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے اور اس وقت ملک میں ایک کروڑ اسی لاکھ لوگوں کو امداد کی ضرورت ہے۔
منگل کے روز امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کے نمائندوں نے بتایا کہ خاص طور پر اس بحران کے دوران نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو فوری امداد پہنچانا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے طالبان سے کہا کہ وہ افغانستان کے غیر محفوظ لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنا کر اپنے حالیہ وعدوں کو پورا کریں۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں ہرتین میں سے ایک بچے کو ضرورت سے کم خوراک میسر آتی ہے۔
کابل سے ایک زوم میٹنگ کے دوران افغانستان میں یونیسف کے ایمرجنسی اور فیلڈ اپریشنز کے رہنما مصطفیٰ بن مسعود نے کہا کہ جن لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے ان میں بھوک کے شکار بچے اور لڑائی میں زخمی ہونے والے افراد شامل ہیں۔
دارالحکومت کابل میں امدادی کارروائیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حالات میں بہتری آرہی ہے، اگرچہ حالیہ دنوں میں عالمی ادارہ صحت کی موبائل ہیلتھ ٹیموں کو کام کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
کسی سے انتقام نہیں لیں گے، افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، ترجمان طالبان
کابل میں اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تحت خواتین کو تمام حقوق حاصل ہوں گے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری کو یقین دلایا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان نے ملک پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پیدا ہونے والی تشویش اور خوف و ہراس دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گروپ کا کوئی بھی شخص آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا؛ آپ کے دروازے پر دستک نہیں دے گا اور آپ سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ''گزشتہ 20 برسوں کے دوران ہزاروں فوجی ہمارے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سب کو معاف کر دیا ہے۔ ان سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے''۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ سمیت کئی یورپی ملک اپنی فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان مترجموں اور دوسرے کارکنوں اور ان کےخاندانوں کو امیگریشن فراہم کر رہے ہیں، تاکہ وہ طالبان کے انتقام کا ہدف نہ بن سکیں، ترجمان نے اعلان کیا کہ غیرملکی قوتوں کے ساتھ کام کرنے والے تمام مترجم اور کانٹریکٹرز کو بھی معافی دے دی گئی ہے اور ان سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔
ترجمان نے کہا کہ ''ہم 18ماہ سے امن مذاکرات کر رہے تھے۔ قطر میں ہماری ایک مضبوط ٹیم ہے۔ لیکن بعض جنگ کے خواہش مندوں نے ان مذاکرات کو نقصان پہنچایا''۔
کیا چین افغانستان میں طالبان کی حکومت کو عنقریب تسلیم کر لے گا؟
افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد چین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ بیجنگ تاحال آئندہ صورتِ حال کے لئے فکر مند ہے اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کے لئے بڑے پیمانے پراقتصادی اور سیکیورٹی کے وعدے نہ کرے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز چینی سٹیٹ کونسلر اور وزیرِ خارجہ وانگ یی سے افغانستان کی صورتِ حال پر بات کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں وزراء خارجہ نے سیکیورٹی کی صورتِ حال اور اپنے شہریوں کو بحفاظت واپس لانے پر تبادلہ خیال کیا۔
چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پیر کے روز کہا کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور ملک میں تمام فریقوں کی رضامندی کی بنیاد پر افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغان تنازعے کے کسی سیاسی حل کے لئے تعمیری کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ہوا کے بیان کو اس بات کی تازہ ترین علامت خیال کیا جا رہا ہے کہ چین افغانستان میں طالبان کی حکومت جائز تسلیم کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔
28جولائی کو وانگ یی نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے جین میں ملاقات کی تھی۔ چین کہہ چکا ہے کہ اسے توقع ہے کہ افغان طالبان ایک وسیع اور مشترکہ سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور نسلی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
چین افغانستان کے ان ہمسایہ ممالک میں سے ایک ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس نے اپنے سفارتکار 1993 میں افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد واپس بلا لئے تھے۔
1996 مین افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بیجنگ نے اس کے ساتھ باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں کئے۔
جرمن مارشل فنڈ آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس کے سینئیر فیلو اینڈریو سمال کہتے ہیں کہ با لاخرچین طالبان قیادت والی حکومت کو تسلیم کر لے گا۔
طالبان انسانی حقوق کا احترام کریں تو ان کے ساتھ تعاون پر تیار ہیں، یورپی یونین
یورپی بلاک کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے منگل کو کہا کہ یورپی یونین طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد صرف اسی صورت میں ہی افغان حکومت کے ساتھ تعاون کرے گی جب وہ بنیادی حقوق بشمول خواتین کے حقوق کا احترام کریں اور افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردوں کے استعمال سے روکیں۔
جوزف بوریل نے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد ایک بیان میں یورپی یونین کے موقف کا خاکہ پیش کیا تاکہ طالبان کے فوری قبضے پر بات کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال" سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین افغان عوام کو مدد فراہم کرتی رہے گی۔
کسی بھی مستقبل کی افغان حکومت کے ساتھ تعاون پرامن اور جامع تصفیے سے مشروط ہوگا جس میں خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے احترام کے ساتھ ساتھ افغانستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام، بدعنوانی کے خلاف جنگ کا عزم اور دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا شامل ہیں۔
بوریل نے تمام متعلقہ فریقوں پر زور دیا کہ وہ افغان خواتین، مردوں اور ضرورت مند بچوں اور اندرونی طور پر بے گھر افراد کو انسانی ہمدری کی امداد تک محفوظ اور بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دیں۔