افغانستان میں آنے والی تبدیلیاں پاکستان کے لئے کیسی ثابت ہوں گی؟
افغانستان کے تیزی سے تبدیل ہوتے سیاسی منظرنامے پر اس وقت پوری دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ سیاسی انتقامی کاروائیوں، اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کے خدشے کے پیش نظر جو افراد ملک سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں، انہیں طالبان قیادت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
ماضی کے رویوں کے برعکس طالبان راہنما خواتین صحافیوں کو ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے بھی نظر آئے اور کابل کے ہزارہ اکثریتی علاقے دشت برچی میں محرم الحرام کے سلسلے میں منعقد کی گئی مجلس میں بھی شرکت کرتے بھی۔ یہ حیرت انگیز مناظر دنیا غیر یقینی کی کیفیت میں دیکھ رہی ہے اور یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا یہ طالبان کا نیا جنم ہے؟ کیا طالبان واقعی اپنا وہ سخت گیر نظریہ اور بربریت ترک کر چکے ہیں جو ان کا خاصا ہوا کرتی تھی؟
وائس آف امریکہ اردو کے ساتھ ایک خصوصی فیس بک لائیو بیٹھک میں واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر حسن عباس نے، جو طالبان کی تحریک نو اور احیا پر تحقیقی کتاب 'طالبان ریوائیول' کے مصنف بھی ہیں، افغانستان کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان گزشتہ دس سالوں سے اپنی تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں۔
افغان فورسز کو فراہم کردہ امریکی اسلحہ طالبان کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات
افغان فورسز کی پسپائی کے بعد نہ صرف طالبان نے افغانستان میں سیاسی طاقت حاصل کر لی ہے بلکہ انہیں فراہم کردہ امریکی ہتھیار، اسلحہ بارود، ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان بھی طالبان کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کی رپورٹ کے مطابق افغان فورسز صوبائی ضلعی مراکز کا دفاع کرنے میں ناکام رہیں۔ اس کی وجہ سے بھاری تعداد میں جدید جنگی آلات طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
اس کے بعد لڑاکا طیاروں سمیت مزید اہم ساز و سامان ان کے ہاتھ آیا جب صوبائی دارالحکومت اور فوجی اڈوں سے افغان فورسز پسپا ہوئیں۔
ایک دفاعی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ طالبان کے ہاتھ بھاری مقدار میں امریکہ کے فراہم کردہ آلات لگے ہیں۔
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد اب پاکستان کی افغان پالیسی کیا ہو گی؟
طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان کی صورتِ حال کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی نہایت محتاط انداز میں دیکھ رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں پاکستان نے نہ صرف طالبان کی کھل کر حمایت کی تھی بلکہ حکومت سازی میں بھی طالبان کو پاکستان کی مشاورت اور حمایت حاصل رہی تھی۔
پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ پہلا ملک تھا جس نے 1996 میں کابل میں قائم ہونے والی طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
البتہ طالبان کی جانب سے کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد تاحال پاکستان کی جانب سے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی ایک مختلف دور تھا اس وقت دنیا اور خطے کی سیاست مختلف تھی۔
لیکن زاہد حسین کا کہنا ہے کہ آج کی صورتِ حال مختلف ہے، لہذٰا پاکستان کے لیے فوری طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ نوے کی دہائی میں طالبان کا تاثر بھی بین الاقوامی سطح پر ایسا نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔