کابل میں امریکی خاتون صحافی کی برقعے میں رپورٹنگ، 'حقیقت وہ نہیں جو بتائی جا رہی ہے'
امریکہ کے نشریاتی ادارے ’سی این این‘ سے منسلک خاتون رپورٹر کلیریسا وارڈ کی کابل میں رپورٹنگ کے دوران دو مختلف تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جس پر یہ بحث جاری ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد خاتون رپورٹر کا لباس بھی بدل گیا ہے۔
کلیریسا وارڈ کی ایک تصویر اس وقت کی تھی جب وہ 15 اگست کو کابل میں ایک کمپاؤنڈ کے اندر سے رپورٹنگ کر رہی تھیں اور اس وقت تک طالبان افغان دارالحکومت میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ دوسری تصویر 16 اگست کی ہے جس میں خاتون رپورٹر کو برقعے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب طالبان ملک پر قابض ہو چکے تھے اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے تھے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق خاتون رپورٹر کی ان دونوں تصاویر کو بعض سوشل میڈیا صارفین ایک ساتھ شیئر کر کے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ طالبان کے قبضے سے پہلے اور بعد کی صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔
حامد کرزئی کی طالبان رہنما سے ملاقات، حکومت سازی کے لیے بات چیت
طالبان کے اہم کمانڈر اور سینئر رہنما انس حقانی سے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی قیادت میں ایک وفد نے ملاقات کی ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق طالبان کے ذمہ داران نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ حکومت سازی کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس حوالے سے سابق صدر حامد کرزئی سے بات ہوئی ہے جب کہ اس ملاقات میں حکومتی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔
اس ملاقات سے متعلق معلومات دینے والے طالبان کے ذمہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی ہے اور انہوں نے مزید معلومات فراہم نہیں کیں۔
یاد رہے کہ حقانی نیٹ طالبان کا ایک اہم حصہ ہے جس کے کارندے پاکستان کی سرحد کے ساتھ سرگرم ہیں۔ اس گروپ پر حالیہ برسوں کے دوران افغانستان میں کئی بڑے حملوں کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
طالبان کی ’واٹس ایپ ہیلپ لائن‘ بند، طالبان کی آزادیٴ اظہار کے خلاف کارروائی پر تنقید
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں نے عسکری گروپ سے وابستہ اکاؤنٹس کو بلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے شکایات کے اندراج کے لیے قائم کی گئی ایک واٹس ایپ ہیلپ لائن کو بند کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔
دنیا کے مقبول ترین سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک نے منگل کو کہا ہے کہ وہ طالبان کے افغانستان پر قبضے اور حکومتی امور میں مدد کے لیے مسیجنگ سروس استعمال کرنے کی کوشش کے بعد طالبان سے منسلک واٹس ایپ اکاؤنٹس کو بلاک کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ترجمان فیس بک کا کہنا ہے کہ طالبان پر امریکی قانون کے تحت دہشت گرد تنظیم کے طور پر پابندی ہے اور ہم ہماری خطرناک آرگنائزیشن پالیسیز کے تحت ان کو اپنی خدمات سے روک رہے ہیں۔
افغانستان کی صورتِ حال پر امریکہ میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟