پشاور میں افغانستان کے یومِ آزادی کی تقریب، پاکستان مخالف مبینہ نعروں پر گرفتاریاں
افغانستان کے 102 ویں یومِ آزادی کے سلسلے میں پشاور میں مقیم درجنوں افغان باشندوں کا جشن اس وقت ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا جب بعض افراد نے طالبان کے خلاف اور افغان صدر اشرف غنی کے حق میں نعرے بازی کی۔ پولیس نے ہنگامہ آرائی کے الزام میں 17 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
پشاور کے علاقے حیات آباد میں افغان باشندوں نے بدھ کی شب جشن کے دوران نعرے بازی کی تو مقامی افراد اُن کے سامنے کھڑے ہو گئے جس کے بعد مڈبھیڑ اور پتھراؤ کے نتیجے میں بعض افراد زخمی بھی ہوئے۔
پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 17 افراد کو حراست میں لیتے ہوئے مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے ہیں۔
حراست میں لیے گئے افراد کے خلاف پاکستان کے خلاف نعرے بازی کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔
عینی شاہدین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان نوجوانوں کا اجتماع ابتدا میں پر امن تھا۔ شرکا افغانستان کے قومی پرچم تھامے اپنے ملک کا قومی نغمہ گا رہے تھے۔ اسی دوران مجمعے میں شامل بعض افراد نے طالبان اور ان کی مبینہ حامی پاکستان کی چند مذہبی جماعتوں کے خلاف نعرے لگائے جس سے حالات کشیدہ ہوئے۔
پشاور میں یہ کشیدگی ایسے موقع پر ہوئی ہے جب بدھ کو ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت جلال آباد اور خوست میں ہزاروں افغان باشندوں نے طالبان کے خلاف ریلیاں نکالیں۔ طالبان جنگجوؤں کی جانب سے مظاہرین پر جلال آباد میں فائرنگ سے تین اور خوست میں ایک نوجوان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
پاکستانی سفیر کی سابق افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات
پاکستان کے افغانستان کے لیے سفیر منصور احمد خان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔
ٹوئٹر پر ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے منصور احمد خان نے کہا کہ ملاقات میں افغانستان میں دیرپا استحکام کے لیے کوششوں پر تعمیری گفتگو ہوئی۔
کابل سے 7000 سویلینز کا انخلا ہو چکا ہے، پینٹاگان
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے بتایا ہے کہ 14 اگست سے اب تک افغانستان سے 7000 سے زائد امریکی سویلنز کا انخلا عمل میں لایا گیا ہے، جب کہ امریکی فوج تیزی کے ساتھ مشن پر عمل درآمد کر رہی ہے۔
پینٹاگان میں ہونے والی پریس بریفنگ کے دوران، امریکی فوج کے میجر جنرل ہیک ٹیلر نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بارہ سی 17 طیارے کابل سے روانہ ہوئے جن کے ذریعے 2000 سویلینز کو افغانستان سے نکالا گیا۔
جنرل ٹیلر نے بتایا کہ اب ہمیں مزید طیارے میسر آ چکے ہیں جس کے بعد روزانہ کی بنیاد پر 5000 سے 9000 افراد کا انخلا ممکن ہو گیا ہے، اب انخلا کا دار و مدار اس بات پر ہو گا کہ موسم کتنا سازگار رہتا ہے اور کتنے افراد کے کاغذات تیار کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت کابل ایئرپورٹ پر تقریباً 5200 امریکی فوج موجود ہیں، جن کی تعداد میں رفتہ رفتہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔
افغانستان سے شہریوں کے انخلا کی تاریخ اکتیس اگست سے آگے بڑھائی جا سکتی ہے، صدربائیڈن
ترجمان نے بتایا کہ انخلا کے کام میں تیزی لا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد لوگ پریشانی کے عالم میں ملک سے باہر جانے کے لیے ایئرپورٹ کا رخ کر رہے ہیں۔
پیٹاگان کے پریس سیکرٹری جان کربی نے کہا ہے کہ امریکی اہل کاروں کے ساتھ طالبان کا رویہ مناسب ہے، اور ہوائی اڈے پر پہنچنے کی کوشش کرنے والے وہ افراد جن کے پاس قانونی دستاویزات ہیں، انھیں ایئرپورٹ آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔
دوسری جانب ایسے اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ایئرپورٹ پہنچنے کے خواہش مند افغانی باشندوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔
جنرل ٹیلر نے اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، کہ کیا امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے خیال میں ضرورت پڑنے پر 31 اگست کے بعد بھی انخلا کے لیے مخصوص پروازیں جاری رہ سکتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے انخلاٗ کی تاریخ میں توسیع کی کوئی بات نہیں ہو ئی۔
صدر جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکیوں کے انخلا کا عمل تب تک جاری رکھیں گے، جب تک وہ سب لوگ افغانستان سے نکل نہیں جاتے، جو نکلنے کے خواہش مند ہیں۔
افغانستان سے شہریوں کے انخلا کی تاریخ 31 اگست سے آگے تک بڑھائی جا سکتی ہے، بائیڈن
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کا معاملہ اپنی جگہ، ان کے خیال میں، دیگر ملکوں میں القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں کی آماجگاہوں کا معاملہ زیادہ خطرناک اور پریشانی کا باعث ہے؛ اور اب افغانستان میں امریکی فوجی طاقت برقرار رکھنے پر مزید توجہ دیئے رکھنا سمجھداری نہیں ہو گی۔
اے بی سی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام 'گڈ مارننگ امریکہ' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بائیڈن نے کہا کہ ''اب ہمیں وہاں زیادہ دھیان دینا ہو گا جہاں سے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں''۔
بقول ان کے، ایسے میں جب شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ جیسے خطوں سے سابقہ پڑ رہا ہے، ان بڑھتے ہوئے مسائل کو نظرانداز کرتے ہوئے ہم افغانستان میں ٹریلین ڈالرز خرچ کرتے رہیں اور لاکھوں کی تعداد میں اپنی فوج تعینات رکھیں، یہ دانش مندی نہیں ہو گی۔
'مجھے کابل ایئرپورٹ کے باہر مسلسل فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں
امریکی صدر نے شام اور مشرقی افریقہ میں دہشت گردوں کی آماجگاہوں کا ذکر کیا، جہاں افغانستان کے مقابلے میں داعش کا گروہ ''زیادہ خطرے کا باعث" ہے، اور کہا کہ دولت اسلامیہ کا ''مرض تیزی سے پھیل چکا ہے''۔
انھوں نے کہا کہ شام جیسے مقامات پر امریکہ کی زیادہ فوج نہیں ہے، جب کہ ہمارے پاس خطے میں لڑائی کی استعداد موجود ہے، لیکن یہ قدرے بکھری ہوئی ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب افغانستان سے انخلا کے معاملے پر بائیڈن انتظامیہ کو شدید تنقید کا سامنا ہے، جہاں طالبان نے انتظامیہ کے حکام کی پیش گوئی کے برخلاف تیز رفتاری سے اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے۔ حال ہی میں افٖغانستان میں طالبان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا آغاز دیکھنے میں آیا ہے، جب کہ ہزاروں افغان اور امریکی شہری ملک سے انخلا کے منتظر ہیں۔
داعش، عراق اور شام میں اب بھی موجود ہے: انٹیلی جنس رپورٹ
بائیڈن نے ملک میں خواتین اور بچیوں کے خلاف سلوک کے معاملے پر بڑھتی ہوئی تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محض فوجی طاقت کی بنیاد پر دنیا میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش سمجھداری پر مبنی نہیں ہو گی۔ برعکس اس کے، ضرورت اس بات کی ہے اس معاملے کی نشاندہی سفارتی انداز سے اور بین الاقوامی دباؤ کے ذریعے کی جائے، تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے والے اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوں۔
اسی انٹرویو میں بائیڈن نے کہا کہ وہ تب تک امریکی فوج کو وہاں تعینات رکھیں گے جب تک تمام امریکی شہریوں کا انخلا یقینی نہیں بنا لیا جاتا، اور ضرورت پڑنے پر 31 اگست کی حتمی تاریخ میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بائیڈن بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان میں لڑنے کے لیے امریکہ مزید افواج روانہ کرے۔ پچھلے کئی سال سے افغانستان میں تعینات امریکی فوج کی تعداد لاکھوں میں نہیں تھی۔ صدر بائیڈن کے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے وقت افغانستان میں امریکہ کے 2500 سے 3000 فوجی تعینات تھے۔