افغان مہاجرین کی امریکہ آمد، 10 ریاستوں نے 22 ہزار مہاجرین قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی
امریکہ کی کئی ریاستوں کے گورنروں نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو اپنی ریاستوں میں آباد ہونے میں مدد کریں گے۔ امریکہ کی دس ریاستوں کے گورنروں نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں ان 22 ہزار افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہیں گے جو افغانستان کے مشن میں امریکی فوج کی مدد کر چکے ہیں۔ ابتدائی طور پر 2 ہزار افغان مہاجرین کو ورجینیا میں قائم امریکی فوجی اڈے فورٹ لی میں عارضی رہائش فراہم کی گئی ہے۔ آئیندہ آنے والے ہفتوں میں مزید افغان مہاجرین ٹیکساس اور وسکانسن کے فوجی اڈوں پر پہنچیں گے۔
امریکی ریاست میری لینڈ کے ری پبلکن گورنر لیری ہوگن نے ایک بیان میں افغانستان سے انخلا کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو 'جلد بازی پر مبنی' اور 'غیر ذمہ دارانہ' قرار دیا اور کہا کہ پچھلے چند روز کے دوران افغانستان میں پیش آنے والے واقعات دل دکھانے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے افغان شہریوں نے، جو امریکہ کے حلیف تھے، بہادری سے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر افغانستان میں امریکی کوششوں کی حمایت اور مدد کی ہے، ان میں مترجم اور مددگار سٹاف شامل ہیں اور ان کے مطابق، یہ امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کی مدد کے لئے ضروری اقدامات کرے۔
اس وقت تک امریکی ریاستوں کیلی فورنیا، جارجیا، آئیووا، میری لینڈ، میسا چوسٹس، جنوبی کیرولائنا، یوٹاہ ، ورمونٹ، گوام اور وسکونسن نے افغان مہاجرین کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔
امدادی تنظیموں کا اندازہ ہے کہ تقریبا اسی ہزار افغان اتحادی اور ان کے اہلخانہ نے سپیشل امیگرنٹ ویزا کے لئے درخواستیں دی ہیں۔ وہ یہ ویزا پروگرام ہے، جس کے تحت امریکہ نے امریکی افواج کے لئے خدمات انجام دینے والے افغان شہریوں کی ویزا درخواستوں کو تیز رفتاری سے نمٹایا جا رہا ہے۔
اکثر امریکی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کی طوالت کے مخالف، سروے رپورٹ
امریکہ میں صدر بائیڈن کے خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور سے نمٹنے کے بارے میں اگرچہ بڑے پیمانے پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اب بھی اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے کہ آیا افغانستان میں جنگ سود مند تھی۔
اس کا اندازہ ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی، سینٹر فار پبلک افئیرز ریسرچ کے رائے عامہ کے ایک جائزے سے ہوا ہے۔
جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اندازاً دو تہائی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ کی طویل ترین جنگ اتنی سود مند تھی کہ اتنی دیر تک لڑی جاتی۔
اس سروے میں 47% امریکیوں نے داخلی امور جب کہ52% نے بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں بائیڈن کی اہلیت کو سراہا۔
رائے عامہ کا یہ جائزہ اس سال 12 سے 16اگست کے دوران لیا گیا۔ جب افغانستان کی 20 سالہ جنگ ختم ہوئی اور طالبان اقتدار پر دوبارہ قابض ہو گئے۔ اس میں 1729 لوگوں کی رائے لی گئی اور غلطی کی شرح 3.2% بیان کی گئی ہے۔
"طالبان نے عسکری اور سیاسی طور پر بہت قبل تیاری شروع کر دی تھی"
افغانستان میں سابق امریکی سفیر ارل انتھنی وین نے وی او اے کی مونا کاظم شاہ سے گفتگو میں کہا کہ آنے والے دنوں ميں افغانستان ميں طالبان کو حکومت تشکيل دينے کے لیے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ان کا مزید کیا کہنا تھا، دیکھیے اس انٹرویو میں۔
طالبان نے سابق حکومت کے کلیدی عہدے داروں کوتحویل میں لینا شروع کر دیا
ناروے کے ایک انٹیلی جنس گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان نے اپنی ایک بلیک لسٹ میں درج افغان باشندوں کو تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے جن کے خیال میں وہ پچھلی افغان انتظامیہ یا امریکی قیادت والی افواج کے ساتھ کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
نارویجن سینٹر فار گلوبل اینالیسس (RHIPTO) کی طرف سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے سابقہ انتظامیہ سے منسلک افراد کو ہدف بنا رہے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "طالبان نے سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے تمام قریبی افراد کی تلاش تیز کر دی ہے اور ناکامی کی صورت میں وہ ان کے خاندان کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ انہیں اپنے شرعی قانون کے تحت سزا دیں گے۔"
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "خاص طور پر فوج، پولیس اور تحقیقاتی یونٹوں میں مرکزی عہدوں پر کام کرنے والے اہل کار زیادہ خطرے میں ہیں۔"
نارویجن سنٹر فار گلوبل اینالیسز کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "افغانستان رپورٹ" اقوام متحدہ میں کام کرنے والی ایجنسیوں اور افراد کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا، "یہ اقوام متحدہ کی تیار کردہ رپورٹ نہیں ہے، بلکہ ناروے کے غیر منافع بخش نجی مرکز برائے عالمی تجزیے نے یہ رپورٹ تیار کی ہے"
کیا افغانستان میں طالبان کے خلاف اب کوئی مزاحمتی تحریک ابھر سکتی ہے؟
طالبان کے ترجمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان دنیا کے سامنے ایک زیادہ اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چار صفحات کی رپورٹ میں سابقہ حکومت میں انسداد دہشت گردی کے ایک عہدے دار کے اپنے دوست کو لکھے گئے ایک خط کو شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے کابل میں اپنے اپارٹمنٹ سے حراست میں لینے کے بعد اس سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ سابق انتظامیہ کے سیکیورٹی فورسز کے ایک سینئر رکن نے صحافیوں کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ طالبان نے قومی سلامتی کی خفیہ دستاویزات حاصل کی ہیں اور طالبان سابق انٹیلی جنس اور سیکیورٹی عملے کو گرفتار کر رہے ہیں۔