رسائی کے لنکس

فائل فوٹو
فائل فوٹو

طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین

سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔

03:17 20.8.2021

مزار شریف کی چوکیاں، طالبان محافظوں کا انداز بچگانہ تھا

فائل فوٹو
فائل فوٹو

جیک سمکن جنگوں اور متنازع علاقوں کی فوٹوگرافی کرنے والے ایک فری لانسر ہیں۔ وہ اس ہفتے کے شروع میں افغانستان سے فرار ہو کر ازبکستان پہنچے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کو فون پر بتایا کہ مزار شریف قصبے سے سرحد تک سڑکوں پر بہت سی چوکیاں ہیں جنہیں نوجوان طالبان جنگجو سنبھالتے ہیں۔

سمکن نے ان کے ظاہری حلیے کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لئے 'goofy' یا 'بیوقوف' کا لفظ استعمال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ "وہ ہمارے سوالات کے جوابات دینے اور تصاویر کے لیے پوز بنانے پر خوش تھے۔ میرا اندازہ ہے کہ ان میں سے اکثر بچوں جیسے ہیں ۔ وہ سیلفیاں لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس بندوقیں اور گولہ باردو ہے اور وہ اپنا لہجہ ترش اور آواز بلند کر سکتے ہیں۔"

نوجوان جنگجوؤں نے اسے بتایا کہ وہ "اپنے صوبے سے کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کو پاک کرنے" کے لیے آئے ہیں۔

سمکن کا کہنا تھا کہ کچھ مقامی لوگوں نے انہیں بتایا کہ وہ مقامی جنگجوؤں اور جنگی سرداروں عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور کے جانے پر خوش ہیں۔ ان دونوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں وہ بھاگ گئے تھے۔

مزار شریف افغانستان کا چوتھا بڑا شہر ہے، تاریخی اعتبار سے یہ شہر 1990 کے عشرے میں طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کا ایک مضبوط گڑھ تھا۔ انہوں نے 2001 میں نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد طالبان کو شکست دینے میں امریکی قیادت کی افواج کی مدد کی تھی۔

سمکن نے وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مزار شریف میں زیادہ تر خواتین 'خوف کے مارے' اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'زیادہ تر لوگ گھروں کے اندر رہ رہے ہیں، کیونکہ وہ ان خبروں سے پریشان ہیں کہ طالبان شادی کے لئے خواتین پسند کر رہے ہیں'۔

سمکن نے بتایا کہ انہوں نے مزار شریف میں نئے طالبان گورنر کے سیکیورٹی مشیروں سے ملاقات کی، جنہوں نے انہیں بتایا کہ "خواتین عام ملازمتوں پر واپس جا سکتی ہیں ۔ اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی ہیں، لیکن وہ ان اسکولوں میں جائیں گی اور ان اداروں میں کام کر سکتی ہیں جو صرف خواتین کے لئے ہوں ''۔

سمکن نے بتایا کہ سرحد پار ازبکستان جانے کی کوشش کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ازبک حکام نے سرحد بند کر دی ہے، لیکن پیسے اور تعلقات والے لوگ سرحد پار جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرحد کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو بھی طالبان کنٹرول کررہے ہیں اور وہ لوگوں کو روک رہے ہیں۔ سمکن کا کہنا تھا کہ مجھے صرف یہ دکھ ہے کہ میں اپنے دوستوں کو افغانستان سے نہیں نکال سکا۔

03:21 20.8.2021

طالبان نے کابل کی سیکیورٹی حقانی نیٹ ورک کے حوالے کر دی؟

مسلح طالبان کابل میں گشت کر رہے ہیں، 19 اگست 2021
مسلح طالبان کابل میں گشت کر رہے ہیں، 19 اگست 2021

طالبان نے افغان دارالحکومت کابل کی سیکیورٹی حقانی نیٹ ورک کے سینئیر اراکین کے حوالے کردی ہے،جن کے القاعدہ سمیت غیر ملکی جہادی گروہوں کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے جیمی ڈیٹمر کی رپورٹ کے مطابق، مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو یہ ذمہ داری دینا پریشان کن امر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کے وعدے کچھ جب کہ ان کا عمل کچھ اور ہے۔ طالبان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 1996ء سے 2001ء تک کے دور کے بر عکس اعتدال کا راستہ اپنائے گی۔

انٹیلی جنس عہدے داروں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ القاعدہ کو دوبارہ افغانستان میں میں راستہ دیا جا سکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ گزشتہ سال طالبان نے امریکی عہدیداروں سے قطر میں جو وعدے کئے تھے، ان کی پاسداری نہیں کی جائے گی۔ طالبان نے دوحہ میں وعدہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین غیر ملکی جہادیوں کی آماجگاہ نہیں بننے دی جائے گی۔

جمعرات کے دن افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ، عبداللہ عبداللہ نے کابل میں خلیل الرحمٰن حقانی کی سربراہی میں آنے والے وفد سے ملاقات کی، مفاہمتی کونسل میں نامور عمائدین شامل ہیں جنھوں نے قطر کی بات چیت میں شرکت کی تھی۔ ۔

بعد ازاں، عبداللہ نے اس بات کا اعلان کیا کہ خلیل الرحمٰن حقانی افغان دارالحکومت کی سیکیورٹی کی نگرانی کریں گے، اور یہ کہ انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ''کابل کے شہریوں کو بہترین سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کی جائے گی''۔

افغانستان کی اقلیتیں اور اندیشوں کا سیلاب بلا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

امریکی محکمہ خزانہ نے فروری 2011ء میں خلیل الرحمٰن حقانی کو دہشت گرد قرار دیا تھا، اور کہا تھا کہ ان کے بارے میں اطلاع دینے والے کو 50 لاکھ ڈالر کا انعام دیا جائے گا۔ ان کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں سے متعلق فہرست میں بھی شامل ہے۔

عبداللہ عبداللہ اور خلیل الرحمٰن حقانی کی ملاقات سے چند ہی گھنٹے قبل، طالبان نے افغانستان کی اسلامی امارات کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔

انٹیلی جنس کے ایک برطانوی عہدےدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''یہ ایک پریشان کن حقیقت ہے کہ خلیل الرحمٰن حقانی کو کابل کی سیکیورٹی کا انچارج بنایا گیا ہے''۔

بقول ان کے، حقانی اور القاعدہ کے آپس میں پرانے تعلقات ہیں، آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ دراصل وہ ایک ہی ہیں، اس لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ باہمی تعلقات منقطع کر دیں''۔

ایک ریٹائرڈ برطانوی سفارت کار ایور رابرٹس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کابل کی سیکیورٹی کی نگرانی حقانی نیٹ ورک کے حوالے کرنے کا اقدام ایسا ہے، جیسے'' آپ چوزوں کی رکھوالی لومڑی سے کروا رہے ہوں''۔

رابرٹس انسداد شدت پسندی کے پراجیکٹ میں ایک سینئر مشیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جو ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر حیران ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ پبلک ریلیشنز کے حوالے سے طالبان ہوش مند ثابت ہونگے، لیکن اس فیصلے سے ایسا نہیں لگتا

رابرٹس کے بقول، وہ اپنی تنظیم کا سب سے برا تاثر دینے والا پہلو سب کے سامنے رکھ رہے ہیں، جس سے خواتین، لڑکیوں اور سول سوسائٹی کو ایک خطرناک پیغام جائے گا۔ میرے خیال سے اس قدم سے یہ امکان بڑھ جاتا ہے کہ افغانستان دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا۔

09:30 20.8.2021

ائمہ نمازِ جمعہ میں اتحاد کا پیغام دیں: طالبان

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

طالبان نے ائمہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ نمازِ جمعہ کے خطبات میں اتحاد کا پیغام دیں۔

طالبان کی یہ ہدایت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب افغانستان پر قبضے کے خلاف احتجاج کا دائرہ دارالحکومت کابل تک پہنچ گیا ہے۔

جمعرات کو افغانستان کے 102 ویں یومِ آزادی کے موقع پر جلال آباد اور اسدآباد کے بعد کابل میں بھی شہریوں نے احتجاج کیا جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طالبان کی جانب سے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغان عوام کی جانب سے طالبان کے قبضے کے خلاف سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں ایک خاتون کو یہ نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ 'ہمارا جھنڈا ہماری پہچان ہے۔'

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی مقامات پر لوگوں نے طالبان کے لگائے گئے سفید جھنڈے بھی اتار لیے ہیں۔

'رائٹرز' کے مطابق سفید جھنڈے ہٹائے جانے یا افغانستان کے جھنڈے اتارنے سے متعلق ردِ عمل کے لیے طالبان کے ترجمان دستیاب نہیں ہیں۔

11:15 20.8.2021

افغان امریکی خوف اور مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ میں رہنے والے افغان باشندوں کو تشویش لاحق ہے۔ انشومن آپٹے نے نیویارک اور امریکی ریاست کنیٹیکٹ میں رہنے والے ایسے افغان باشندوں سے بات کی جو کسی دور میں امریکی فوج یا سرکاری اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں اور انہیں خوف تھا کہ وہ طالبان کا ہدف بن سکتے تھے۔

'یہ ایک پوری افغان نسل کا نقصان ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:18 0:00

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG