افغان تنازع میں قطر کا کردار؛ مستقبل میں کیا کر سکتا ہے؟
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی ہو یا دیگر علاقائی معاملات عرب ملک قطر گزشتہ کئی برسوں سے عالمی سیاسی منظر نامے پر متحرک ہے۔
خطے کے بعض ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود گزشتہ برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی راہ ہموار کرنے والے اس ملک کو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد اب بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد کابل سے نکلنے کے خواہش مند افغان پناہ گزینوں اور دیگر افراد کو لے کر بیشتر امریکی طیاروں کی پہلی منزل قطر ہی ہے جب کہ قطر میں ہی طالبان کے سیاسی دفتر میں ان دنوں چہل پہل نظر آتی ہے اور طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر قطر کے ہی ایک جہاز میں سوار ہو کر افغانستان پہنچ چکے ہیں۔
افغانستان کے عوام کو غیریقینی صورت حال میں خوف اور اندیشوں کا سامنا
افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ کابل میں سیکیورٹی کی صورتِ حال قدرے بہتر ہو رہی ہے لیکن انہیں افغان حکومت کے خاتمے اور طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد سیاسی غیریقینی پر تشویش ہے۔ اس غیر یقینی اور خوف کی وجہ صرف موجودہ صورتِ حال ہی نہیں بلکہ طالبان کے گزشتہ دور اقتدار کی یادیں بھی ہیں۔ نخبت ملک کی رپورٹ۔
افغانستان میں پرچم کی تبدیلی پر بحث
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ملک کی علامت سمجھے جانے والے پرچم پر بحث ہو رہی ہے کہ اب افغانستان کا پرچم کون سا ہو گا۔
طالبان ملک کے مختلف شہروں میں کئی اہم مقامات پر افغانستان کا پرچم اتار کر اپنا سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔ جنگجوؤں کے اس اقدام کے بعد جلال آباد اور اسد آباد جیسے شہریوں میں لوگوں کی جانب سے طالبان کے لگائے گئے پرچم اتارنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری سفید جھنڈے اتار کر واپس افغانستان کے پرچم لہرا رہے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان کے پرچم کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار افغان پرچم کا رنگ اور ڈیزائن تبدیل ہوتا رہا ہے اور اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔
'طالبان نے عسکری اور سیاسی طور پر بہت عرصہ قبل تیاری شروع کر دی تھی'
افغانستان میں سابق امریکی سفیر ارل انتھنی وین نے وی او اے کی مونا کاظم شاہ سے گفتگو میں کہا کہ آنے والے دنوں ميں افغانستان ميں طالبان کو حکومت تشکيل دينے کے لیے عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ ان کا مزید کیا کہنا تھا؟ دیکھیے اس انٹرویو میں