افغانستان میں طبی رسدوں کی شدید قلت ہے، عالم ادارہ صحت
عالمی ادارہ صحت، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں لاکھوں لوگوں کی صحت سے متعلق ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف چند روز کی میڈیکل سپلائیز باقی رہ گئی ہیں۔
جمعرات کے روز کابل ایئرپورٹ پر اسلامک اسٹیٹ-خراسان کے جنگجوؤں کی جانب سے خود کش حملے کے بعد، جس میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک اور درجنوں دوسرے زخمی ہوئے، خاص طور پر 'ٹراما کٹس' کی مانگ بڑھ گئی ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں اور دوا خانوں کے لئے صحت سے متعلق ایمرجنسی کٹس، جن میں ہنگامی صورت سے نمٹنے کی ادویات اور دوسرا سامان ہو؛ شدید نوعیت کی غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کے لئے صحتمند غذا اور کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے والے ساز و سامان کی بھی قلت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مشرقی بحیرہ روم کے خطے کے ایمرجنسی ڈائرکٹر رک برینن کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے سبب کمرشل طیاروں کے کابل ایئرپورٹ پر اترنے کی پابندی ہے۔ اسلئے، عالمی ادارہ صحت ملک میں ادویات وغیرہ لانے کے لئے دوسرے ذریعے تلاش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں سیکیورٹی اور نقل و حمل سے متعلق بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ لیکن ہمیں امید ہے اور ہم توقع کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حکومت پاکستان کی مدد سے طبی ساز و سامان ملک میں لا سکیں گے۔
اس مرحلے پر کابل ایئرپورٹ کا کوئی متبادل نہیں ہے، چنانچہ ہم ممکنہ طور پر مزار شریف کا ہوائی اڈہ استعمال کریں گے اور ہماری پہلی پرواز امید ہے کہ آئندہ چند روز میں جائے گی۔
افغانستان میں صورت حال خراب ہے؛ پورے ملک میں انسانی ضروریات بہت زیادہ ہیں، جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کوئی اٹھارہ ملین لوگوں کو بین الاقوامی مدد اور حمایت کی ضرورت ہے۔ جن میں سے ساڑھے تین ملین اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے آدھا ملین ایسے ہیں جو اسی سال بے گھر ہوئے ہیں۔
اور برینن نے کہا کہ صحت کا عالمی ادارہ افغانستان میں ٹھہرنے اور بے گھر ہونے والوں اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کا پابند ہے؛ اور انہوں نے کہا کہ عورتوں اور بچوں کی بہبود بطور خاص تشویش کا سبب ہے۔
ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ خواتین ہیلتھ ورکرز کام پر نہیں آرہی ہیں اور بعض سہولتوں پر عورتوں اور بچوں کی حاضری بھی کم ہوگئی ہے۔
یہ طبی سامان دستیاب ہونے کی ضرورت کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، اور بنرینن نے کہا کہ ادارے کا عملہ ملک کے تمام 34 صوبوں میں موجود ہے اور انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے ڈبلیو ایچ او کی 2200 سہولتوں میں سے زیادہ تر سہولتیں کھلی ہوئی اور فعال ہیں۔
تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تیزی سے کم ہوتی میڈیکل سپلائیز کو پورا نہ کیا گیا تو لوگ زیادہ تعداد میں بیمار ہونگے اور ہلاک ہونگے۔
طالبان افغانستان میں امریکی سفارتی موجودگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ
افغانستان سے انخلا سے متعلق صدر بائیڈن کی ڈیڈ لائن 31 اگست میں اب چند ہی روز باقی رہ گئے ہیں اور ایک جانب جہاں امریکہ افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں اہم نوعیت کے فصیلے کرنے پر غور و فکر کر رہا ہے، وہیں دوسری جانب طالبان کابل ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
جمعرات کو کابل ایئرپورٹ کے قریب ہولناک خودکش دھماکوں کے بعد جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت ایک سو کے لگ بھگ افراد ہلاک اور بڑی تعداد میں زخمی ہوئے یہ اختتام ہفتہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکہ کے محکمہ خارجہ نے کہا ہےکہ افغانستان میں امریکی سفارت کاروں کے تحفظ اور سیکیورٹی کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ آیا 31 اگست کے بعد امریکہ وہاں اپنی سفارتی موجودگی برقرار رکھے گا یا نہیں۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعے کو ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ اختیارات کی پرامن منتقلی کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ایئرپورٹ ٹریفک کے ماہرین نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ ان کے جانے کے بعد ایئرپورٹ پر موجود سہولیات معمول کے کمرشل آپریشن کا بوجھ اٹھا سکیں گی یا نہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا درست نہیں ہو گا کہ یکم ستمبر کو کابل ائیرپورٹ کی سرگرمیاں نارمل ہوں گی۔
کابل سے پروازیں دوبارہ شروع، ملک سے باہر جانے والوں کی بھیٹر
کابل ایئرپورٹ پر جمعے کے روز افغانستان سے انخلا کے منتظر لوگوں کی بھیڑ اسی طرح دکھائی دی جیسے پچھلے دنوں سے لوگوں کا تانتا بندھا رہا ہے۔ پروازوں کا سلسلہ بھی پھر سے شروع ہو چکا ہے، جب کہ ایک دن قبل کے بم دھماکوں میں اب تک 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
روزنامہ 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر افراد جمعے کی شام کو ہوائی اڈے سے اس وقت باہر نکل گئے جب انھیں یہ اطلاع ملی کی ایک اور دہشت گرد حملے کا خدشہ ہے۔
افغان خبر رساں ادارے، 'پژواک' کے مطابق، جمعرات کو ہونے والے حملے میں کم از کم 99 افغان ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 13 امریکی فوجی اہلکار تھے۔

ان حملوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ کے خراسان گروپ نے قبول کی ہے، اس بارے میں دہشت گرد گروپ کا ایک بیان خودکش حملوں کے کچھ ہی گھنٹے بعد خبررساں ادارے 'ٹیلی گرام چینل' نے جاری کیا۔
یہ خودکش بم حملے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈےکے باہر ایبی گیٹ اور ایک قریبی ہوٹل کے قریب ہوئے۔ بعد ازاں، پیٹاگان کی ایک اخباری بریفنگ کے دوران، امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ، جنرل فرینک مکنزی نے بتایا کہ بم حملوں کے بعد گولیاں چلنے کی آوازیں سنی گئیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے عہد کیا ہے کہ حملہ آوروں سے بدلہ لیا جائے گا۔
ترکی نے ابھی کابل ایئرپورٹ سنبھالنے کا فیصلہ نہیں کیا، اردوان
ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ طالبان نے کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں مدد کی درخواست کی ہے اور ترک صدر کے بقول، "وہ کہتے ہیں، سیکیورٹی ہم یقینی بنائیں گے۔ آپ انتظام دیکھیں۔"
لیکن بوسنیا ہرزے گووینا اور مانٹی نیگرو روانہ ہونے سے قبل استنبول میں ایک اخباری کانفرنس میں ترک صدر نے کہا کہ ابھی انہوں نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، کیونکہ وہاں ہر وقت موت کا خطرہ موجود ہے۔
مسٹر اردوان نے کہا کہ ہم اس کا فیصلہ افغانستان میں انتظامیہ واضح ہونے کے بعد کریں گے۔
طیب اردوان نے مزید کہا کہ صحت مند تعلقات کے قیام اور باہمی توقعات کے تبادلے کے لئےکابل میں ترک سفارت خانے کے سینئر نمائندوں اور طالبان کی طویل میٹنگز ہوئی ہیں۔
ترک عہدیداروں کے مطابق، ترک فورسز کی عدم موجودگی میں ترکی، کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں مدد کی حامی نہیں بھرے گا۔
طالبان نے کابل ایئرپورٹ کے انتظام کے لیے ترکی سے مدد طلب کر لی: ترک عہدیدار
دو ترک عہدیداروں نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے باہر دھماکوں کے بعد پیدا ہونے والی سیکیورٹی کی صورتِ حال نے غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد کابل ایئرپورٹ کے انتطام کی اہمیت اور اس میں درپیش خطرات میں اضافہ کر دیا ہے۔
طالبان نے ترکی سے کہا تھا کہ آئندہ منگل کو غیر ملکی فورسز کے انخلاء کی ڈیڈ لائن کے بعد ترکی کابل ایئرپورٹ کے انتظام میں تیکنیکی مدد فراہم کرے جب کہ انخلاء کے الٹی میٹم کا اطلاق ترکی پر بھی یکساں طور پر ہو گا۔
نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے ترکی گزشتہ چھ برس سے کابل ائیرپورٹ کا انتظام سنبھال رہا تھا۔
غیر ملکی فورسز کے انخلاء کے بعد ایئر پورٹ کا کھلا رہنا نہ صرف افغانستان کے دنیا سے رابطے کے لئے اہم ہے بلکہ امدادی سامان کی فراہمی اور امدادی کاروائیاں جاری رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے۔