شہزادہ چارلس برطانیہ کے بادشاہ بن گئے
شہزادہ چارلس ملکہ الزبتھ دوئم کے انتقال کے بعد برطانیہ کے بادشاہ بن گئے ہیں۔
ملکہ برطانیہ جمعرات کے روز بیلمورل میں انتقال کر گئی تھیں۔
شہزادہ چارلس برطانیہ اور 14 دیگر مملکتوں کے لیے بادشاہ ہوں گے۔ انہیں اس مقام تک پہنچنے کے لیے 70 برس انتظار کرنا پڑا۔ وہ برطانیہ کی بادشاہت کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں طویل ترین عرصے تک ولی عہد کے عہدے پر براجمان رہنے والی شخصیت ہیں۔
مبصرین کے نزدیک شہزادہ چارلس کے لیے یہ کردار ادا کرنا آسان نہ ہوگا۔ ان کی آنجہانی والدہ بہت مقبول تھیں لیکن وہ اپنے پیچھے ایسے شاہی خاندان کو چھوڑے جا رہی ہیں جو منقسم ہے اور اس کے لیے عوامی اعتماد میں کمی آئی ہے، خصوصاً بکنگھم پیلس کے حکام پر حال ہی میں لگنے والے نسل پرستی کے الزامات کے بعد۔
چارلس ان چیلنجز کا سامنا 73 برس کی عمر میں کر رہے ہیں۔ وہ ہزار برس طویل بادشاہت کی تاریخ کے سب سے معمر بادشاہ ہوں گے۔ ان کی دوسری اہلیہ کمیلا کے حوالے سے بھی عوامی رائے منقسم ہے۔
پودوں سے بات کرنے اور آرکیٹیکچر اور ماحولیات مین غیر معمولی دلچسپی پر ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ اور ان کو طویل عرصے تک آنجہانی شہزادی ڈیانا کے ساتھ شادی کی ناکامی کا ذمہ دار بھی تصور کیا جاتا رہا ہے۔
اپنے نقادوں کے نزدیک نئے بادشاہ ایک کمزور شخصیت کے مالک ہیں، مداخلت پسند ہیں اور ایک حاکم اعلی کے کردار کے لیے درکار خصوصیات سے لیس نہیں ہیں۔
نئے بادشاہ کے حامیوں کا البتہ کہنا ہے کہ ان پر تنقید ان کے کام پر نکتہ چینی کے سوا کچھ نہیں اور انہیں درست طور پر سمجھا نہیں گیا بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے میں وہ اپنے زمانے سے کہیں آگے سوچ رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ زندگی کے تمام طبقات اور تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم وطنوں کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ ان کی پرنس ٹرسٹ چیریٹی نے گزشتہ پچاس برس میں دس لاکھ سے زائد ملازمت سے محروم اور دشوار صورت حال سے دوچار نوجوانوں کی مدد کی ہے۔
برطانیہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے گا
برطانوی وزیر اعظم لِز ٹرس جمعرات کو یہ اعلان کریں گی کہ ان کی نئی حکومت کس طرح توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں کا بوجھ کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے نتیجے میں پورے برطانیہ میں لوگوں اور کاروباری اداروں کو ایک پریشان کن موسم سرما کا سامنا کرنےپر مجبور کر دیاہے
ایسو سی ایٹد پریس کے مطابق ٹرس جمعرات کو ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دینے والی ہیں۔ توقع ہے کہ وہ بلوں پر ایک حد لگائیں گی جو روس کے یوکرین پر حملے او کویڈ 19 اور بریکزٹ کے بعد کے معاشی اثرا ت کی وجہ سے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ حد کے بغیر، اگلے مہینے اوسط گھرانے کے لیے بل 3,500 پاؤنڈ ($4,000) سالانہ تک پہنچ جائیں گے، قیمتوں کی حد بندی کی لاگت 100 بلین پاؤنڈ ($116 بلین) سے تجاوز کر سکتی ہے، لیکن ٹر س نے تیل کمپنیوں پر ٹیکس لگانے کے لیے اپوزیشن کے مطالبوں کو مسترد کر دیا ہے۔
روس یوکرین میں انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے
انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک سینئر اہلکار نے بدھ کو کہا کہ ان کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ روسی فوجی اور اس سے منسلک گروپ یوکرینی شہریوں کو "فلٹریشن" نامی جارحانہ عمل کا نشانہ بناتے ہیں اور انہوں نے روس کے زیر حراست افراد تک رسائی کا مطالبہ کیا ۔
اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے انسانی حقوق، ایلز برانڈز کیہرس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہا کہ "ایسے معاملات میں جو ہمارے دفتر نے دستاویزی طور پر بیان کِیے ہیں ، دیکھا گیا ہے کہ 'فلٹریشن' کے دوران ، روسی مسلح افواج اور اس سے منسلک مسلح گروہوں نے لوگوں کی جامہ تلاشی لی ، جس میں کبھی کبھی جبری عریانیت ، اور ذاتی پس منظر، خاندانی تعلقات، سیاسی نظریات اور وفاداریوں کے بارے میں تفصیلی پوچھ گچھ شامل تھی ۔
انہوں نے کہا کہ روسی فلٹریشن کا نشانہ بننے والے تمام افراد تک اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے اداروں کی رسائی ہونی چاہئے تاکہ ان کی خیر و عافیت کی تصدیق کی جا سکے ۔
عراق کی اعلیٰ عدالت کا کہنا ہے کہ وہ بحران کے دوران پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتی
عراق کی اعلیٰ ترین عدالت نے بدھ کو فیصلہ سنایا کہ اسے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے۔ سپریم فیڈرل کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو عراق کے آئین کے تحت مقننہ کو تحلیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے جو کہ بااثر شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کا ایک اہم مطالبہ تھا۔
الصدر کے اتحاد نے گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن وہ اکثریتی حکومت بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے پیروکاروں نے جولائی کے آخر میں پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا تاکہ ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروپوں کے اپنے حریفوں کو حکومت بنانے سے روکا جا سکے۔
اس فیصلے کے بعد، عراقی سیکورٹی فورسز نے بغداد میں سخت قلعہ بند گرین زون کے دروازے بند کر دیے - جو حکومت کی نشست اور عراق کے سیاسی بحران کا مرکز ہے –فیصلے کے نتیجے میں ہونے والی ریلیوں، سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں، جوابی ریلیوں اور پارلیمنٹ کے باہر ایک دھرنے سے حکومت سازی کا عمل تعطل کا شکا رہو گیا ہے۔ الصدر کے پیروکاروں کی جانب سے ردعمل کی توقع ہے۔