ایران میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی مذمت
اقوام متحدہ کےانسانی حقوق سے متعلق عہدے داروں نے ایران کے لباس سے متعلق سخت کوڈ کی تعمیل کرنے میں ناکامی کے الزام میں ایک نوجوان خاتون کی ہلاکت پر مشتعل مظاہرین کے خلاف ایرانی سیکورٹی فورسز کے پرتشدد کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے۔
پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران کے 15 صوبوں میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں ۔ مہسا امینی کو 13 ستمبر کو نام نہاد اخلاقیات پولیس نے مبینہ طور پر حجاب صحیح طریقے سے نہ پہننے پر گرفتار کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ ایران کی سیکیورٹی فورس کے ہاتھوں ہلاک، زخمی اور گرفتار ہونے والے مظاہرین کی صحیح تعداد کا پتا لگانا مشکل ہے۔ اس کی وجہ ٹیلی کمیونیکیشن پر پابندیاں ہیں۔ سرکاری میڈیا نے ہلاکتوں کی تعداد 41 بتائی ہے۔
تاہم، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ترجمان روینہ شامداسانی نے کہا ہے کہ صورت حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیموں نے ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ بتائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک مستند ذریعے نے خبر دی ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت 76 افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ کم از کم 11 صوبوں میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
افغان طالبان کا روس کے ساتھ تیل، گیس اور گندم خریدنے کا معاہدہ
طالبان نے روس کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ کیا ہے جس کے تحت روس، افغانستان کو تیل، ڈیزل، گیس اور گندم فراہم کرے گا۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے طالبان کے قائم مقام وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی نے کہا کہ ان کی وزارت اپنے تجارتی پارٹنرز میں تنوع پیداکرنا چاہتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس نے ان کی حکومت کو کم قیمت پر تیل دینے کی پیشکش کی تھی۔
رائیٹرز کے مطابق طالبان کے اگست 2021 میں اقتدار میں لوٹنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی حکومت نے کوئی اہم بین الاقوامی اقتصادی معاہدہ کیا ہے۔
ابھی تک طالبان کی حکومت کو ، روس سمیت کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے تاہم روس ان معدودے چند ملکوں میں شامل ہے جن کے سفارت خانے اب تک کابل میں کھلے ہوئے ہیں۔
عزیزی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت روس افغانستان کو سالانہ دس لاکھ ٹن تیل ، پانچ لاکھ ٹن ایل پی جی, دس لاکھ ٹن ڈیزل اور بیس لاکھ ٹن گندم فراہم کرے گا۔
رائیٹرز کے مطابق روس کی توانائی اور زراعت کی وزارتوں کی جانب اس خبر پر تبصرے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔
نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے پر فریقین غیر معینہ مدت تک آزمائشی طور پر عمل درآمد کریں گے جس کے بعد فریقین کے انتظامات سے مطمئن ہونے کی صورت میں ایک طویل مدت کے معاہدے پر دستخط متوقع ہیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں نرخوں اور ادائیگی کے طریقے کار کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس نے یہ اشیا عالمی منڈی سے کم قیمت پر دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
یہ معاہدہ طالبان کی ایک تکنیکی ٹیم کے ماسکو میں کئی ہفتے گزارنے کے بعد کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے عزیزی نے بھی ماسکو کا دورہ کیا تھا۔
روس کے زیر نگرانی یوکرینی علاقوں میں روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم میں ووٹنگ کا عمل مکمل
یوکرین کے چار حصوں کے روس کے ساتھ الحاق کے لئے، روسی حکام کے زیر نگرانی، ریفرنڈم میں ووٹنگ منگل کو ختم ہو گئی جبکہ یوکرین کی حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ان انتخابات کو دھوکہ دہی کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرین جین پیئر نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ، روس کی جانب سے من گھڑت نتائج کا جو بھی اعلان کیا جاتا ہے، ہم اور ہمارے شراکت دار اسے مسترد کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر روس پر مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ووٹنگ جمعے کو روس کے زیر کنٹرول لوہانسک اور خیر سن علاقوں اور ڈونیٹسک اور زاپوریزہیا کے زیر قبضہ علاقوں میں شروع ہوئی جس کے لئے روسی فوجی گھر گھر جا کر یوکرینی باشندوں کو بندوق کی نوک پر ووٹ دینے کا حکم دیتے رہے ہیں۔
روس کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین اور ملک کے سابق صدر دمتری میدویدیف نے منگل کو کہا کہ اگر روس کے خلاف دھمکیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں تو وہ بغیر کسی سے پوچھے اور طویل مشاورت کے جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔
انہوں نے دھمکی دی کہ روس یوکرین کی حکومت کے خلاف، جس نے بڑے پیمانے پر جارحیت کا ارتکاب کیا ہے، سب سے طاقتور ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہے میدویدیف نے اپنے پیغام میں لکھا کہ نیٹو اس تنازعہ میں براہ راست مداخلت سے باز آجائے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اتوار کو دیر گئے نشر ہونے والے سی بی ایس نیوز کے ’60 منٹس‘ شو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ نے عوامی اور نجی طور پر روس پر واضح کر دیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے بارے میں دھمکیاں دینا بند کرے۔
بلنکن نے کہا ہم نے اسے بالکل واضح کر دیا ہے اس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔
جاپان نے شنزو ایبے کو آخری الوداع کہہ دیا
جاپان نے منگل کو جدید جاپان کے ایک اتہائی بااثر رہنما سابق وزیر اعظم شنزو ایبے کو ایک جذباتی الوداع پیش کیا ، جنہیں جولائی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ مرکزی ٹوکیو کےنیپون بڈوکان میدان میں منعقدہ سرکاری تقریب میں ہزاروں جاپانی شہریوں اور غیر ملکی معززین نے شرکت کی اگرچہ اس تقریب پر اندرون ملک تنقید ی رد عمل بھی سامنے آیا ۔
تقریب، جس میں امریکی نائب صدر کاملا ہیرس ، جاپان کے ولی عہد اکی شینو اور دوسرے غیر ملکی اور جاپانی عمائدین نے شرکت کی ، سوگ کے سیاہ لباس میں ملبوس ایبے کی اہلیہ سے شروع ہوئی جو سنہری پٹیوں کے ساتھ کاسنی کپڑے میں لپٹے لکڑی کے ایک باکس میں ایبے کی باقیات لیے کیشیدا کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے فیونرل احاطے میں داخل ہوئیں ۔ سفید یونیفار م میں ملبوس فوجیوں نے ایبے کی باقیات کو اٹھایا اور انہیں سفید اور زرد پھولوں سے بھرے ایک پیڈسٹل پر رکھا۔
شرکاء اس وقت خاموشی سے کھڑے ہو گئے جب فوجی بینڈ نے قومی ترانہ بجایا ، پھر ایبے کی حکمرانی کی مدت کی تعریف پر مبنی ایک ویڈیو سے پہلے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ فوٹیج میں 2006 میں ان کی پارلیمانی تقریر ، جس میں انہوں نے ایک خوبصورت جاپان کی تعمیر کا عزم کیا تھا ، 2015 میں امریکی کانگریس میں ان کی تقریر ، " امید کے اتحاد کی جانب" شامل تھیں ۔ اس میں مارچ 2011 میں سونامی کے بعد تباہی سے متاثرہ شمالی جاپان میں ان کا دورہ اور 2020 ٹوکیو اولمپکس کو فروغ دینے کے لیے ریو ڈی جنیرو میں 2016 سپر ماریو کی نقالی شامل تھی ۔
جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے اپنے دوست اور سرپرست کے لیے ایک انتہائی ذاتی یادگاری تقریر کی۔
تقریب سے پہلے جاپانی شہریوں کے ایک طویل جلوس نے ایک قریبی پارک میں انہیں پھول پیش کرنے اور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے میدان سے باہر قطار بندی کی ۔
امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے جو امریکی فیونرل وفد کی قیادت کر رہی ہیں، پیر کے روز کہا کہ ایبے نے امریکہ کے ساتھ پائیدار دوستی کا ورثہ چھوڑا ہے۔
تقریب میں ایبے کو اپنے تعاون اور دوستی کی وجہ سے سراہا گیا ۔ خاص طور پر جمہوری ملکوں کے ساتھ ۔ جن کے لیے انہوں نےکہا کہ ان سب کو مشترکہ چیلنجوں پر مل کر کام کرنا چاہئے۔
جاپان کی سب سے بڑی سیاسی حزب مخالف جماعتوں نے تقریب کا بائیکاٹ کیا جس کے بارے میں نقادوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کس طرح سرمایہ دارانہ مزاج کی حکومتیں جنازوں کو قوم پرستی کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر جاپانی اس سرکاری تدفین کے مخالف تھے۔ بہت سوں کو شکایت ہے کہ تقریب پر بہت زیادہ خرچ کیا گیا ۔
حکومت کا اندازہ ہے کہ اس پر بارہ ملین ڈالر خرچ ہوں گے، جو اس سے قبل کےاندازے سے کہیں زیادہ ہے ۔