صدر اردوان نے ترکیہ کو قدرتی گیس کا مرکز بنانے کے روسی معاہدے پر دستخط کر دیے
ترک صدر رجب طیب اردوان نے ترکیہ کو روس کی قدرتی گیس کے ایک مرکز میں تبدیل کرنے سے متعلق روسی صدر ولادی میر پوٹن کے منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں۔ بدھ کے رو ز پارلیمنٹ کے نائبین سے خطاب کرتے ہوئے اردوان نے کہا کہ ترکی نے پوٹن کے منصوبے سے متفق ہو کر ایک اہم موقع حاصل کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ملک اس وقت اس تلاش میں ہیں کہ قدرتی گیس کی رسدیں کہاں سے حاصل ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ ترکی کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، امید ہے کہ ہم جلد ہی قدرتی گیس کے لئے ایک مرکز بن جائیں گے۔
پوٹن کا یہ منصوبہ ا یسے میں سامنے آیا ہے جب انقرہ یورپ کے لیے روسی توانائی کا ایک متبادل بننے کی کوشش کررہا ہے۔
ترک صدارتی ترجمان ابراہیم کالین نے بدھ کے روز کہا کہ پوٹن کی پیش کش بہت اہم ہے، لیکن اگر یورپ روسی گیس کے متبادل کی تلاش میں ہے تو وہ دو جگہوں سے اسے حاصل کر سکتا ہے، آزر بائیجان سے ترکی کے راستے گزرتی ہوئے ایک پائپ لائن اور مستقبل میں ممکنہ طور پر ایرانی گیس، ایک بار پھر ترک پائپ لائنوں کے ذریعے سے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اردوان پوٹن کی مدد کی کوشش اس لیے کریں گے کیوں کہ وہ روسی گیس کی قیمت میں کمی اور ادائیگیوں کو اگلے سال ترک صدارتی انتخاب تک موخر کرنے سے متعلق گفت و شنید کی کوشش کررہے ہیں ۔
یوکرین کے اہداف پر ڈرون حملوں کے لیےایرانی فوجی روس کی مدد کر رہے ہیں: امریکہ
وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس اس بارے میں شواہد ہیں کہ ایرانی فوجی یوکرین کے بجلی گھروں اور دوسرے اہم انفرا اسٹرکچر پر روسی ڈرون حملوں میں کرائمیا کی براہ راست زمینی مدد کر رہے ہیں ۔
قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے جمعرات کو نامہ نگاروں کوبتایا کہ ایران نے نسبتاً کم تعداد کا عملہ کرائمیا بھیجا ہے جو یوکرین کا وہ حصہ ہے جس سے روس نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2014 میں اپنے ساتھ الحاق کر لیا تھا۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق انہوں نے کہا کہ ایرانی ٹرینرز اور ٹیکنیکل ماہر روسی فوجیوں کو یوکرین کے خلاف ایرانی ساختہ ڈرونز لانچ کرنے میں مدد کر رہے ہیں لیکن یہ سب کام روسی خو دسر انجام دے رہے ہیں۔
امریکی انٹیلی جینس کی یہ معلوما ت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب روس ایرانی ساختہ ڈرونز سے یوکرین کے شہری اہداف پر بم برسا رہا ہے اور بائیڈن انتظامیہ تہران کو روس کی مدد کرنے سےروکنے کے لیے اس پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایران کی پاسداران انقلاب فورس کی آزربائیجان کی سرحد کے ساتھ فوجی مشقیں
ایران کی پاسداران انقلاب کور آزر بائیجان کے ساتھ ملک کی سرحد کے ساتھ فوجی مشقیں کر رہی ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی علامات موجود ہیں۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا نے خبر دی ہے کہ شمال مغربی علاقے میں پیر کو شروع ہونے والی مشقیں سالانہ سر گرمیوں کے پہلے سے تیار کیے گئے ایک منصوبے کے مطابق ہو رہی ہیں ۔ جس مقام پر مشقیں ہورہی ہیں اس میں ایران کے مشرقی آزر بائیجان اور اور اردابیل کے صوبے شامل ہیں ، جہاں نسلی آزر بائیجان کی ایک بڑی آبادی مقیم ہے۔
پاسداران انقلاب کی زمینی فورسز کے کمانڈر محمد پاک پور نے کہا ہے کہ ان مشقوں میں دریائے آریکس پر ایک پل کی تعمیر اور اہم چوکیوں پر قبضے کی پریکٹس شامل ہے۔
ارنا نے پاک پور کے حوالے سے بتایا کہ ان مشقوں کا پڑوسی ملکوں کے لیے پیغام ہے امن ، دوستی اور مستحکم سلامتی کو مضبوط کرنا، اور دشمنوں کےلیے یہ ہے کہ پاسداران انقلاب ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور کسی بھی خطرے کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔
آزر بائیجان میں ایرانی سفارت خانے نے مشقوں کے بارے میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ تہران نے باکو کو مشقوں کے بارے میں ایک پیشگی نوٹس دے دیا تھا جس پر دونوں ملکوں کے فوجی رہنماؤں نے گفتگو کی تھی۔
امریکہ کا تائیوان کےساتھ ہتھیار بنانے کے مشترکہ منصوبے پر غور
ایک بزنس لابی نے کہا ہے کہ امریکی حکومت تائیوان کے ساتھ مشترکہ طور پر ہتھیار تیار کرنے کے ایک منصوبے پر غور کر رہی ہے ، جو ایک ایسا اقدام ہے جس کا مقصد چین کے خلاف تائپے کی مزاحمت کو تقویت دینے کے لیے اسلحے کی منتقلی کی رفتار کو تیز کرنا ہے ۔
امریکی صدر 2017 سے تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت میں 20 ارب ڈالر سے زیادہ کی منظوری دے چکے ہیں جب کہ چین نے جمہوری طور پر چلائے جانے والے اس جزیرے پر فوجی دباو بڑھا دیا ہے۔
بیجنگ تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے ۔
تائیوان اور امریکی کانگریس نے سپلائی چین میں مشکلات اور یوکرین کی جنگ کے باعث کچھ سسٹمز کے لیے مانگ میں اضافے کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔